امیرالعظیم کے ساتھ چند لمحات 


یہ لمحے کئی عشروں پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ 1970ء میں میں نے ’اردو ڈائجسٹ‘ سے صحافت کا آغاز کیا تو وہاں امیرالعظیم کے والد فضل عظیم جنرل مینیجر کے طور پر موجود تھے۔ انتظامی امور سے نبٹنا کوئی ان سے سیکھے۔ انھوں نے ہماری دیکھادیکھی کتابوں کی تلخیص بھی شروع کردی۔ یقین مانیے انھوں نے اس میدان میں بھی ہمیں پچھاڑ کر رکھ دیا۔ صدر نکسن کی کئی ہزار صفحات کی خودنوشت کو انھوں نے کوزے میں بند کردکھایا۔
 امیر العظیم نے کئی چیزیں اپنے والد گرامی سے سیکھیں۔ انتظامی امور کا درس بھی فضل عظیم صاحب سے لیا اور لکھنے لکھانے کے فن میں مہارت بھی انھی سے ورثہ میں لی۔ اسی مہارت کا کرشمہ ہے کہ انھوں نے عرفان صدیقی کو لاجواب کردیا۔ عرفان صدیقی یہ کہہ بیٹھے کہ سینئرموسٹ کو آرمی چیف مقرر کرنا سراج الحق کی اپنی ذاتی رائے تھی ۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنی شوریٰ سے مشورہ نہیں کیا۔ امیرالعظیم جیسے گھات لگائے بیٹھے تھے، انھوں نے بیک وقت نصف درجن اخبارات میں چھپنے والے کالم نویس کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ موقف نہ صرف جماعت اسلامی کی مجلس ِ شوریٰ کا ہے بلکہ اسے جماعت کے منشور کا حصہ بھی بنادیا گیا ہے۔ جماعت سے لڑنے بھڑنے سے پہلے فریق مخالف کو ہزار بار سوچنا چاہیے۔
ایک مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا بیان واپس لے۔ ان دنوں لیاقت بلوچ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انھوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیاکہ جماعت اس بیان کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں بلکہ وزیراعظم سے شکایت کررہی ہے کہ فوج کو سیاست میں حصہ لینے سے روکے۔ جماعت کے کارکنوں کی تربیت مولانا مودودی ؒ کے ہاتھوں میں ہوئی جنھوں نے ایک اصولی موقف پر پھانسی کی سزا کا فیصلہ مسکراکر سنا۔ اسی جماعت کی لیڈر شپ نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کا مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ آج مشرقی پاکستان کے جماعت کے لیڈروں کو پھانسی کی سزائیں ہوگئی ہیں لیکن انھوں نے اپنے کردہ یا ناکردہ جرائم پر معافی نہیں مانگی۔ وہ اللہ اکبر اور پاکستان زندہ بادکا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔
جناب سراج الحق کچھ عرصہ قبل میرے سسرمحترم چودھری غلام حسین تہاڑیہ کی وفات پر تعزیت کے لیے میرے غریب خانے پرامیرالعظیم کے ہمراہ تشریف لائے توسلام دعا کے بعد میں نے پوچھاکہ آپ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے حق میں ووٹ کاسٹ کیوں نہیں کیا؟ سراج الحق نے اپنے روایتی جچے تلے انداز میں جواب دیا کہ اگر میں اپنا ان کے حق میں کاسٹ کردیتا تو پھر اسد اللہ غالب نے پوچھنا تھا کہ آپ نے ایک آرمی چیف کی توسیع کے حق میں ووٹ کیوں ڈالا؟ یوں انھوں نے میری بولتی بند کروادی۔
امیرالعظیم کے ساتھ میری پہلی ملاقات کوٹ لکھپت جیل کی قصوری چکی میں ہوئی جہاں انھیں دیگر احباب کے ساتھ پابندِسلاسل کیا گیا تھا۔ اس ملاقات کو چالیس برس گزرگئے ہیں، مجھے ابھی تک ان کے ہونٹوں پہ کھیلنے والی مسکراہٹ یاد آتی ہے ۔ وہ یونیورسٹی میں طلبہ سیاست سے فارغ ہوئے اور جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تو ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ جماعت کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر گزرا۔ اب وہ 62-63 کے پیٹے میں ہیں تو جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ امیرالعظیم نے جماعت کے کڑے نظم و ضبط میں رہتے ہوئے اخبار نویسوں سے دوستانہ تعلقات استوار کیے۔ دوستی میں قربت پیدا کرنا اور مسکراتے رہنا کوئی امیرالعظیم سے سیکھے۔ انھوں نے سینئرترین صحافیوں کو جماعت کا ہم نوا بنالیا اور جماعت کو ان کے تندوتیز تنقیدی جملوں اور حملوں سے محفوظ رکھا۔گزشتہ ہفتے امیرالعظیم میرے گھر چلے آئے ۔ وہ بڑی کوشش کر بیٹھے تھے کہ میں گارڈن ٹائون میں ان کا نیا دفتر دیکھنے جائوں تاہم میں بینائی کی معذوری کی وجہ سے انھیں طرح دے جاتا تھا۔ لیکن پھر میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ امیرالعظیم کا دفتر واقعی دیکھنے کے لائق ہے۔ وہ سوشل میڈیا اور ایک ٹی وی چینل کی اڑان بھرنے والے ہیں ۔ 
میرا خیال تھا کہ امیرالعظیم مجھے اپنے دفتر لے جانے کے لیے میرے گھر آرہے ہیں ۔ وہ روایتی مسکراہٹ کے ساتھ گاڑی سے اترے ، ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جو انھوں نے میری طرف بڑھادی۔ میں نے پوچھا یہ کونسی کتاب ہے اور کس نے لکھی ہے؟ انھوں نے بتایا کہ یہ خرم جاہ مراد کی کتاب ’لمحات‘ ہے اور یہ ان کی پوری زندگی کی داستان پر محیط ہے ۔
مجھے یاد آیا کہ پچھلے برس امیرالعظیم مجھے یو ایم ٹی لے گئے تھے اور خرم جاہ مراد کے پوتے سے میری ملاقات کروائی تھی۔ انھوں نے مجھے اپنے والد ڈاکٹر صہیب مراد کی لکھی ہوئی ایک کتاب پیش کی تھی ۔ بعد میں کسی وقت اسلم خان صاحب نے یہ کتاب میرے گھر دیکھی توانھوں نے کہا کہ آپ نے خرم جاہ مراد کی کتاب ’لمحات‘ ان سے مانگنا تھی۔ میں نے امیرالعظیم سے اس کتاب کا مطالبہ کرڈالا ۔ انھوں نے جماعت کے مکتبے سے رابطہ قائم کیا تو پتا چلا کہ یہ کتاب آئوٹ آف پرنٹ ہے ۔گزشتہ ہفتے سے یہ کتاب میرے ریک میں سجی ہے۔ اللہ ،اللہ ،میرے ایک تقاضے پر جماعت اسلامی نے اس کتاب کا پورا ایک ایڈیشن چھاپ ڈالا۔ کسی کا دل جیتنے کا فن بھی کوئی امیرالعظیم ہی سے سیکھے۔ اب میں یہ کتاب کسی سے سنوں گا اور اس کے بارے میں اپنے تأثرات قلمبند کروں گا۔
مجھے یاد آیا کہ امیرالعظیم اپنی جماعت کی قیادت کو کس طرح زمین سے اٹھاکر آسمان کی کہکشائوں کا حصہ بنادیتے ہیں ۔ قاضی حسین احمد ؒ نے باقی سیاسی جماعتوںکے سامنے پہلی مرتبہ ملین مارچ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ دھرنے کا فن بھی قاضی صاحب نے ہی دیگر سیا ستدانوں کو سکھایا۔ ’ظالمو!قاضی آرہا ہے‘ کا نعرہ بھی قاضی صاحب کے دور میں ہی گونجا۔ پاسبان مظلوموں کے سروں پر چھت کا سایہ فراہم کرنے کا آسرا بنی اور سیاستدانوں کے شاہی محلات کے باہر قاضی صاحب نے ایک کھلی کچہری لگائی ۔ ان مہمات کے پس پردہ امیرالعظیم کی صلاحیتیں ہی سرگرم عمل تھیں۔ میرے ڈرائنگ روم میں سبز چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے امیرالعظیم نے گزشتہ چالیس برس کے دریچے کھول دیے ۔یادوں کے ان دریچوں سے تازہ ہوائوں کے لطیف جھونکے میری روح کو گدگدارہے تھے۔ میں نے اس نوجوان کواپنی ڈھیرساری دعائوں کے جلو میں رخصت کیا اور وعدہ کیا کہ اپنے روزمرہ کے چند لمحات ان کے دفتر میں گزارنے کے لیے آیا کروں گا۔ 

ای پیپر دی نیشن