اخلاقی نصائح پر مبنی جانوروں اور پرندوں کے قصوں کی کتاب ’کلیلہ و دمنہ‘ ہندوستان کی قدیم دانش کا قیمتی سرمایہ ہے ۔ چوتھی صدی میلادی کے ایک برہمن بیدپا فیلسوف نے یہ کہانیاں ایک ظالم رائے دابشلیم نامی بادشاہ کیلئے ترتیب دیں ۔ اسکے سخت مزاج کے باعث اسے براہِ راست مخاطب کر کے سمجھانا ممکن نہ تھا، اس لیے بیدپا نے جانوروں اور پرندوں کو زبان دے کر اسے حکمرانی کے اصول و قواعد اور سلطنت کو نقصان پہنچانے والے امور کی نشاندہی کی۔ ہندوستان میں عقیدہ تناسخ کے باعث جانوروں اور پرندوں کو حکمت کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا۔ راج پاٹ کی شان ہی ایسی ہے کہ نازک مزاج شاہوں کو تاب سخن نہیں رہتی ۔ اک روایت کیمطابق، برہمن فلسفی کی نصیحتیں بادشاہ کو گراں گزریں۔ برہمن کو قید کرلیا گیا۔اللہ جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ ایک مدت بعد اس نے اپنی ندامت کا اظہار کرتے ہوئے برہمن سے معافی تلافی کا بندوبست کر لیا۔ اب اس نے ان اخلاقی نصیحتوں پر مبنی قصے کہانیوں کو کتابی شکل دینے کی بھی خواہش ظاہر کی ۔ بیدپا نے شاہی خواہش کے احترام میں سال بھر میں کتاب مکمل کر ڈالی۔
یہ لکھنے پڑھنے والے بھی عجب مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ برہمن نے سال بھر کی کھپائی کے بعد کتاب کے صلے میں محض اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ کتاب ہندوستان سے باہر نہ نکلے ۔ خاص طور پر ایرانیوں کے ہاتھ نہ لگ سکے ۔ برہمن کی خواہش کے احترا م میں کتاب کو شاہی خزانے میں محفوظ رکھ لیا گیا ۔ ادھر، ایران کے بادشاہ نوشیروان کو جب اصول حکمرانی کے سلسلے میں اس کتاب کی اطلاع ہوئی تو اس نے حکومتی امور اور رعایا کی دیکھ بھال کیلئے اس کتاب کا حصول بہت ضروری سمجھا۔ اس نے اپنے ایک دانا شخص برزویہ کو یہ کتاب حاصل کرنے کیلئے ہندوستان روانہ کر دیا۔ وہ اپنے مقصد میں کیسے کامیاب ہوا؟ یہ بھی ایک الگ کہانی ہے ۔ برزویہ نے اصل کتاب میں چند مزید کہانیوں اور حصول کتاب کے سلسلے میں ہندوستان پہنچنے ، قیام اور واپسی کے احوال بھی پہلے باب میں لکھ ڈالے ۔’ کلیلہ و دمنہ ‘ سنسکرت میں تھی ۔ برزویہ نے اسے پہلوی زبان میں منتقل کیا۔ عہدِ عباسی میں یہ کتاب پہلوی سے عربی زبان میں عبداللہ بن مقفہ نے منتقل کی ۔ اس نے اس میں مزید چار فصلوں کا اضافہ کر دیا۔ کالم نگار کے ہاتھ میں موجود کتاب اسی عربی نسخے کا اردو ترجمہ ہے ۔ عربی سے اردو ترجمہ ہندوستان سے مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی نے کیا ہے ۔ تسہیل و تدوین ساہیوال سے اردو کی معروف لکھاری حنا جمشید نے کی۔کالم میں اسی کتاب میں سے ایک کہانی پیش کی جارہی ہے۔ اس کہانی میں یہ سبق ہے کہ تدبیر وہ کام کرتی ہے جو قوت و طاقت سے بھی انجام نہیں دیا جا سکتا۔ ’بتایا جاتا ہے کہ ایک شیر ایسی جگہ رہتا تھا جہاں گھاس اور پانی وافر مقدار میں تھا۔ اسی جگہ پانی اور چراگاہ کی کشادگی اور پھیلائو کی وجہ سے بہت سارے دیگر وحشی جانور بھی رہا کرتے تھے ۔ لیکن وہ شیر کے ڈر سے اس جنگل سے کئی دفعہ نفع نہیں حاصل کر پاتے تھے ۔ ایک دن وہ سارے اکٹھے ہو کر شیر کے پاس آئے اور اسے کہنے لگے ، ’آپ بڑی مشکل اورتکلیف کے بعد ایک جانور حاصل کر پاتے ہیں۔ ہماری ایک رائے ہے جس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور ہمارے لیے بھی امر ہے ۔ اگر آپ ہمیں امان دیں گے اور خوفزدہ نہیں کریں گے تو ہمارا یہ وعدہ ہے کہ ہم ہر رو زایک جانور آپ کے صبح کے کھانے میں بھیج دیں گے‘ ۔ شیر اس پر راضی ہو گیااور جانوروں نے بھی اس پر اکتفاکرلیا۔ اب وہ اپنے اس عہد کو پورا کرتے رہے ۔ ایک دفعہ ایک خرگوش کے نام قرعہ نکلا ۔ اسے شیر کے پاس لے جانے لگے تو وہ بولا،’میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے ۔ اگر تم لوگ میرا ساتھ دو تو میں تمھیں شیر سے نجات دلا سکتا ہوں۔ اس میں تمھارا کوئی نقصان نہیں ، سراسر فائدہ ہی ہے‘ ۔ جانوروں نے کہا، ’وہ ترکیب کیا ہے ؟ ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‘اس پر وہ خرگوش بولا، ’ اسے مجھے تھوڑی سی مہلت دینے کو کہو جو مجھے شیر کے پاس لے کرجائیگا ۔ اس طرح میں تھوڑی سی تاخیر کروں گا‘۔ جانوروں نے بیک زبان کہا،’ایسا ہو سکتا ہے‘۔
خرگوش نے جانے میں دیر کر دی ۔ حتیٰ کہ شیر کے صبح کے کھانے کا وقت گزر گیا۔ پھر وہ اکیلا آہستہ آہستہ وہاں پہنچا۔ شیر بہت بھوکا تھا۔ وہ غصے میں آگیااور اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی جانب بڑھا۔ اس نے کہا ،’اتنی دیر سے کیوں آرہے ہو؟‘ جواب میں خرگوش بولا،’میں آپکے پاس جانوروں کا ایلچی بن کر آرہا ہوں۔ انھوں نے میرے ساتھ آپ کیلئے ایک خرگوش کو بھی بھیجا تھا۔ راستے میں ایک شیر میرے پیچھے پڑ گیا اور اس نے وہ خرگوش مجھ سے دبوچ لیا‘۔ شیر بولا،’میں اس علاقے اور اس کے جانوروں کا زیادہ حقدار ہوں‘۔میں نے اسے کہا، ’یہ بادشاہ کی خوراک ہے ۔ سب جانوروں نے مل جل کر اسے اسکے پاس بھیجا ہے ۔ تم اسے غصہ نہ دلائو لیکن اس نے آپ کو گالی گلوچ بھی کیا۔ میں آپ کو اس وقوعے کی اطلاع دینے کیلئے دوڑا چلاآرہا ہوں‘۔ شیر غصے میں بپھر گیا اور بولا، ’ میرے ساتھ آئو اور مجھے وہ جگہ دکھائو جہاں تمھاری شیر سے مڈبھیڑ ہوئی تھی‘۔ خرگوش اسے صاف شفاف پانی سے بھرے ایک کنویں کے پاس لے گیااور اس میں جھانک کر کہنے لگا، ’یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھے شیر ٹکرا تھااور دیکھو وہ رہا شیر‘۔ شیر نے کنویں میں جھانکا ۔ وہاں اسے اپنے اور خرگوش کے عکس کو پانی میں دیکھاتو اسے ساری کہانی کا یقین ہو گیا۔ شیر غصے میں اس سے لڑنے کیلئے اس پر جھپٹ پڑا۔ اس طرح وہ کنویں میں ڈوب کر مر گیا۔ خرگوش جانوروں کے پاس واپس گیا اور انھیں شیرکے بارے اپنے کارنامے کے احوال بتائے۔اس طرح خرگوش نے اپنی تدبیر اور فراست سے شیر کو پچھاڑ دیا۔‘ انسان اس کرۂ ارض پر ہزاروں برس سے آباد ہے ۔ اس نے اپنے سے طاقتور جانوروں اور قوتوں پر اپنی تدبیر اور فراست سے قابو پایا۔ طاقت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن تدبیر اور فراست سے طاقت کو شکست دی جا سکتی ہے ۔