ویسے تو سیاست بات چیت اور عوامی رائے کے احترام کا نام ہے مگر ہمارے ہاں اس کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اور انکے رہنمایہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں آج تک جمہوریت کو صحیح معنوں میں پھلنے پھولنے نہیں دیاگیامگر جب موقع ملتا ہے تو ان میں سے بہت سے سیاسی رہنما خود ہی اپنے طرزِ عمل سے جمہوریت کی نفی کرتے نظرآتے ہیں۔ اس مجموعی طرزِ عمل کی وجہ سے پھرغیرجمہوری قوتیں حوصلہ پکڑتی ہیں اور سیاست میں مداخلت کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ اس سال اپریل میں ایک آئینی اور قانونی طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم کی گئی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ اسے ایک جمہوری عمل سمجھ کر تسلیم کر لیا جاتا اور آئین و قانون کے اندر رہ کر اپنے جمہوری حق کیلئے جوبھی کوشش یاد ردِ عمل اختیار کیا جانا تھا، وہ کیا جاتا مگر جناب عمران خان نے اپنی اقتدارسے علیحدگی کو قبول نہیںکیا اوراسے ایک غیرملکی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فوج کو بھی براہِ راست اس میں ملوث قراردے دیا۔ اسکے بعد اس بنیاد پرانہوں نے ایک بیانیہ تیار کیا جس کے تحت آج تک ملک بھرمیںاشتعال، افراتفری اورغیریقینی کی صورت پیداکردی گئی ہے۔ عوام بالخصوص نوجوان نسل کو ایک گمراہ کن پراپیگنڈہ کے تحت ورغلایا گیا جس کیلئے سوشل میڈیا کا بھرپور مگرخطرناک استعمال کیاگیا۔ ملک کے تمام معتبر اداروں بشمول عدلیہ، فوج اور الیکشن کمیشن کے خلاف ایک بھرپور اور گھناﺅنی مہم چلائی گئی جو کہ آج بھی جاری ہے۔ اس مہم کا بنیادی مقصد ان قومی اداروں کو عوام کی نظروں میں متنازعہ بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کرناہے تاکہ سب کو دباﺅ میں لاکر اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جاسکیں۔
ان اداروں کے سربراہوں کو جلسوں میں للکاراگیا اور انکی بھرپورکردار کشی بھی کی گئی اور اس کے نتیجے میں پہلے سے زبوں حالی کی شکار معیشت مزید پستی کی طرف گامزن ہے۔ پا ک فوج جیسے مقدم قومی ادارے کو بدترین پراپیگنڈہ کا نشانہ بنایا گیا جس سے ہمارے دشمنوں کے ہاں بھی خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ فوجی قیادت کی طرف سے مسلسل تحمل اوربرداشت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے مگر دوسری طرف سے رویے میں کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہاں تک کہ فوج میں معمول کی اعلیٰ سطح پر تعیناتیوں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ چند روز قبل راولپنڈی میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے دورہنماﺅں شہبازگل اور اعظم سواتی نے عمران خان اور دوسرے رہنماﺅں کی موجودگی میں پاک فوج اور اس کی قیادت کے متعلق جس طرح کے انتہائی توہین آمیز اور ناقابلِ برداشت الفاظ استعمال کئے وہ کسی مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔ قیادت کی موجودگی میں ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ انہیں اس معاملے میں قیادت کی بھرپور تائید و حمایت حاصل تھی۔ عمران خان فوج سے یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ غیرجانبدار ہو جائے بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ فوج اقتدارمیں واپس آنے کیلئے انکی مدد کرے جبکہ فوج کا واضح اعلان ہے کہ اس نے سیاست سے مکمل لاتعلقی کا فیصلہ کرلیا ہے جس کی عمران خان اور انکی جماعت کے علاوہ ہر کسی نے تعریف کی ہے۔
گزشتہ سات ماہ میں اپنے ہرحربے میں ناکامی کے بعد اب عمران خان نے کہا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دینگے تاکہ حکومت کو نئے انتخابات کروانے پرمجبور کیاجاسکے۔ اس اعلان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ صرف ایک شخص کی ضد، انا اورذاتی مفاد کیلئے دوصوبائی اسمبلیاں توڑناکہاں کی جمہوریت ہے۔ اس سے تو ملک میںغیریقینی اور سیاسی عدم استحکام میںمزید اضافہ ہوگا۔ آخر کار اتنے بڑے فیصلے کا کوئی ٹھوس جواز تو ہونا چاہیے۔ ملک میں اگلے سال ویسے ہی عام انتخابات ہونے ہیں لہٰذا جمہوری اورآئینی سوچ تو یہی کہتی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دینی چاہیے۔ اس سے پہلے اکتوبر میں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں عمران خان نے تمام حلقوں سے حصہ لیااور 6 سیٹیں جیت کر بھی اسمبلی میں نہیں گئے جس کی وجہ سے سارا عمل بے معنی ہو گیا جبکہ قومی خزانے پر کروڑوں روپے کا بوجھ پڑ گیا۔ یہ سوچ نہ ہی جمہوری ہے اور نہ ہی مثبت بلکہ یہ ایک نفاق اور نفرت کی بنیاد پر بنائے گئے بیانیے کی عکاس ہے۔
پاکستان کو آج کل بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا چیلنج زبو ں حالی کا شکار معیشت کوسنبھالا دیناہے مگر اس کیلئے باہمی اتفاق رائے سے لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان کے طرزِ سیاست کی بناپرملک میں ایک عجیب ہیجان اور غیر یقینی کی صورت حال ہے جس میںہر پاکستانی پریشان ہے۔ ملک میںکاروبارِ زندگی تقریباً منجمد ہے۔ ا نہیں یہ بات سمجھ آنی چاہیے کہ اس ساری صورتحال میں انہیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ اگلے سال عام انتخابات منعقد ہونے ہیں جس کا سب کو انتظار کرنا چاہیے کہ مثبت طریقے سے اپنی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے عام انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے اور پھریہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کو اقتدار پر بٹھانا چاہتے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد اور ہوس اقتدار میں ملک کو منفی اور نفاق کی سیاست کی بھینٹ چڑھاناواضح طورپر ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔