اللہ تعالی جب کسی کو عہدہ جلیلہ پر فائز کرتا ہے تو ساری رعایا اس کی اولاد کی طرح ہو جاتی ہے ۔ چند ایک سے محبت اور شفقت کا اظہار اور باقی لوگوں کی جانب سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ اخبارات میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اسٹیج اداکارطارق ٹیڈی مرحوم کے بیٹے جنید طارق کو 30لاکھ روپے کا چیک دیا اور فوری طور پر چیف منسٹر آفس میں سرکاری ملازمت پر فائز بھی کردیا ۔بیشک یہ اچھی روایت ہے لیکن اس معاشرے میں طارق ٹیڈی مرحوم سے کہیں زیادہ قومی سطح پر خدمات رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں ۔ ان میں وہ صحافی بھی ہیں جو پیٹ پر پتھر باندھ کر صبح گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے تک سڑکوں پر خبروں کی تلاش میں پھرتے ہیں۔سردی گرمی ، بارش اور طوفانوں میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سرگرداں نظر آتے ہیں ۔لیکن کتنے ہی لوگ اختر حیات ، سعید بخاری اور ریاض بٹالوی کی طرح بے یارومدد گار موت کی وادی میں جا سوئے لیکن کسی حکمران کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی ۔ شاعر اور ادیب معاشرے کی زبان بنتے ہیں لیکن ہمارے وطن میں شاعر کا جنازہ اٹھا ہو یا کسی ادیب کا ۔ دو آنسو بھی بہانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ 5مارچ 2021ءکی صبح اچھرہ فلائی اوور پر دیال سنگھ کالج کے پروفیسر آفتاب احمد اپنے گھر چونگی امرسدھو سے دیال سنگھ کالج پڑھانے جارہے تھے ۔اچانک پتنگ کی ڈور تلوار بن کے ان کی گردن پر ایسی پھر ی کہ منٹوں سکینڈوں میں وہ خون میں لت پت ہوکر زمین پر گرے اور تڑپنے لگے اور چند لمحوں میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پروفیسر آفتاب امریکہ سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے جہاں ان کی پوسٹنگ گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور ہو گئی۔ لاہور میں ان کا آنا ناگہانی موت کا سبب بن گیا۔ پروفیسر ناصر بشیر جو ممتاز شاعر اور ادیب ہیں اور دیال سنگھ کالج میں پڑھاتے بھی ہیں انہوں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو مخاطب کرکے ایک کالم لکھا کہ پولیس کے ایک کانسٹیبل کے مرنے پر اسکے لواحقین کو 30لاکھ روپے کا چیک دیا جاتا ہے ۔ کیمسٹر ی میں پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسرکو ایک کانسٹیبل ہی سمجھ کر اسکے لواحقین کو 30لاکھ کا چیک دیا جائے لیکن کسی نے پروانہیں کی۔ اور آج اس پروفیسرکو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال نو مہینے ہوچکے ہیں۔کیا اسکے لواحقین 30لاکھ روپے کے مستحق نہیں تھے؟ نہایت ادب سے گزارش ہے کہ اگر ایک سٹیج اداکار کے مرنے پر 30لاکھ دیئے جاسکتے ہیں اور لانگ مارچ میں حصہ لینے والے نوجوان معظم کے لواحقین کو 50لاکھ مل سکتے ہیں تو ادیب ، شاعر،صحافی اور اساتذہ کرام کی خدمات کو کیوں فراموش کیا جارہا ہے ۔ اسمبلی کب ٹوٹتی ہے اور کب حکومت ختم ہوتی ہے اسکے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اگر آپکے دل میں اس معاشرے کی زبان بننے والوں کے بارے میں تھوڑی سی بھی ہمدردی ہے تو جس طرح آپ نے فنکاروں کیلئے ایک ارب روپے مختص کیے ہیں اوران کا ماہانہ وظیفہ 25 ہزار کردیا ہے۔ اسی طرح ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور کالم نگاروں( بطور خاص جو فری لانسر اخبارات میں کالم لکھتے ہیں )انکو بھی پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔مزید برآں حکومت کی جانب سے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور کالم نگاروں کی انشورنس کرائی جائے۔ایک ایسا صحت کارڈبھی ان کیلئے خصوصی طور پر جاری کیا جائے جس پر ادیب، شاعر ، صحافی اور فری لانسرکالم نگار اپنی ضرورت کی ادویات مفت حاصل کر سکیں اور سپشلسٹ ڈاکٹروں سے مفت علاج بھی کروا سکیں ۔اگر ہسپتال میں ایڈمیشن کی ضرورت پیش آئے تو وہاں کے اخراجات بھی حکومت پنجاب ادا کرے۔ انتقال کی صورت میں طارق ٹیڈی کی طرح انکے لواحقین کو 30لاکھ روپے کا چیک دیا جائے اور ان کی اولاد میں سے کسی ایک کو سرکاری نوکری بھی دی جائے جس طرح 1122 اور فوڈ سیفٹی نمبر 1223 متعارف کروایا ہے اسی طرح شاعر، ادیبوں،صحافیوں اور کالم نگاروں کے اندراج کیلئے بھی کوئی ایک نمبر مختص کردیں جس پر نام ، ولدیت، شناختی کارڈ نمبر، گھر کا ایڈریس، اخبار کا نام (جس میں کالم لکھے جارہے ہیں اور بطور صحافی جہاں ملازم ہیں ) بھی شامل ہو۔سچ او ر جھوٹ کی تصدیق اس ٹرسٹ کی ذمہ داری ہوجس کے ذمے حکومتی سطح پر معاملات کا انتظام و انصرام ہو۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب اس لمحے وقت کی لگامیں آپکے ہاتھ میں ہیں۔ معاشرے کی زبان بننے والے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور کالم نگاروں کیلئے معاشی آسانیاں پیدا کریںتاکہ ان معاشی انحطاط کا شکار لوگوں کے دلوں پر آپ کی محبت کی مہر لگ سکے۔