دہلی کے حکمرانوں نے اپنے ہر قول اور فعل سے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اول تا آخر متعصب ہندو نظریات کے حامل ہیں اور ان کے سیکولرازم اور انسانیت کے تمام تر دعوے محض لفاظی کے سوا کچھ نہیں ۔ سبھی جانتے ہیں کہ چھ دسمبر کو بھارت کے تمام مسلمان گذشتہ 30 برس سے یومِ سیاہ کے طور پر منا تے آ رہے ہیں کیونکہ اس دن 1992 میں بھارتی صوبے یو پی میں جو سانحہ رونما ہوا اس نے پورے بر صغیر کے امن و امان کو تہہ و بالا کر کے رکھا دیا تھا۔ اس روز ایودھیا میں بابری مسجد شہید کر دی گئی ، اس کے فوری نتائج تو یہ برآمد ہوئے کہ ہندوستان بھر میں مسلم کش فسادات کے دوران چند ہی دنوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ تیس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس جرم عظیم کے مرتکب کسی بھی ایک فرد کو سزا نہیں دی گئی بلکہ انھیں باعزت بری کر دیا گیا جس سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کا اصل چہرہ بڑی حد تک دنیا کے سامنے پھر بے نقاب ہو چکا ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ مغربی دنیا نے اپنے سطحی مفادات کی خاطر اس جانب ہنوذ خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
یاد رہے کہ بھارت نے اپنی آزادی کے بعد سے نہ صرف مغربی دنیا، بلکہ عالم ِ اسلام کے اکثر ممالک کو بھی طویل عرصے تک یہ تاثر دیے رکھا کہ ہندوستان میں جمہوریت قائم ہے اور اس ملک کے مسلمان باشندوں کو کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا
اور اگر کہیں مسلم کشی کے واقعات پیش آتے بھی ہیں تو انھیں حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا یہ چہرہ پوری طرح مصنوعی تھا اور گذشتہ 75 برسوں کے دوران وہاں بر سر اقتدار آنے والی ہر حکومت کے دور میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور انھیں اجتماعی اور انفرادی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 2019 میں ایک جانب بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اقرار کیا تھا کہ ماضی میں یہاں کوئی رام مندر ہونے کا ٹھوس دستاویزی ثبوت تو نہیں مگر دوسری طرف مذکورہ بینچ نے محض بھارت کی ہندو اکثریت کے متعصب جذبات کی تسکین کیلئے اس کا فیصلے جنونی ہندوﺅں کے حق میں کر دیا۔ اگرچہ بھارتی عدل و انصاف کی ”روایات“ سے یہ غیر متوقع تو نہیں اور یہ فیصلہ بھی برہمنی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہی کیا گیا ۔ واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندو¶ں کے حوالے کر دی تھی اور دہلی سرکار نے وہاں بابری کے ڈھانچے کو بھی شہید کر دیا اور اب وہاں رام مندر کی تعمیر جاری ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایاتھی ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس رنجن گگوئی نے یہ فیصلہ اپنی ریٹائرمنٹ سے محض ایک ہفتہ قبل سنایا ، 17 نومبر کو موصوف ریٹائر ہو رہے تھے ، ویسے بھی یہ فیصلہ 16 یا 17 نومبر کو سنایا جانا تھا مگر جانے کن وجوہات کی بنا پر انتہائی عجلت میں یہ فیصلہ سنایا گیا۔ رام مندر کی تعمیر کے فیصلے کے بعد بھارت بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، تقریباً پورے بھارت میں میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے 11 نومبر تک بند کرنے کا اعلان کیا گیا اور ایودھیا سمیت پورے بھارت میں سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی تھی ۔مبصرین کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں عجلت کی وجہ یہ بھی تھی کہ کرتار پور کاریڈور کا افتتاح چونکہ اسی برس 9 نومبر کو ہوا ، اسی برس 5 اگست کو مودی نے بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی ، یوں علاقائی اور عالمی سطح پر مودی سرکار انتہائی دباﺅ میں تھی اس لئے وہ عوامی توجہ ہٹانے کیلئے کچھ جنونی ہندو جذبات کی تسکین چاہتی تھی، جس کی وجہ سے یہ سب کچھ فوری طور پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ امر بھی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ”رنجن گوگوئی“ پر بعد ازاں جب ہراسانی کا الزام لگا تو انھوں نے عدالت جانے سے انکار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بھارتی عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا، انھوں نے اپنی سوانح عمری اور ایک خصوصی انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی کتاب کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنا موقف لانا چاہتے تھے ۔ یاد رہے کہ موصوف نے اپنی تحریر کردہ کتاب Justice for the Judge: An Autobiography میں تفصیل کے ساتھ بلاواسطہ اور بل واسطہ دونوں ڈھنگ سے بتایا ہے کہ9نومبر 2019کو انہوں نے بابری مسجد کی شہادت پر جو فیصلہ دیا وہ ان کا ذاتی فعل نہےں تھا۔واضح رہے کہ کہ رنجن گوگوئی 3 اکتوبر 2018 سے 17 نومبر 2019 تک چیف جسٹس آف انڈیا کے منصب پر فائز رہے اور رام مندر کا فیصلہ سنانے کے انعام میں بی جے پی نے انھیں راجیہ سبھا کا رکن بنا دیا ( جاری ہے )
نہ بابری، نہ برابری ( 2 )
امر اجالا
اصغر علی شاد
Shad_asghar@yahoo.com
( گذشتہ سے پیوستہ) مبصرین کے مطابق اس امر سے سبھی آگاہ ہیں کہ یہ گروہ ان مذموم عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی متھرا میں واقع عید گاہ مسجد اور بنارس کی عالم گیری مسجد کو بھی شہید کر دیں گے اور ان کی جگہوں پر بالترتیب کرشن مندر اور شیو مندر بنایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ بھی پورے ہندوستان میں 3 ہزار دیگر مسجدوں اور درگاہوں کی فہرست جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جلد یا بدیر ان تمام عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا جائے گا ۔ بابری کی شہادت کے 30 سال مکمل ہونے پر غیر جانبدار حلقوں نے اس معاملے کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کے قصبے ایودھیا میں واقع 4 سو سالہ بابری کی مسجد کو جس طور شہید کیا گیا اس سے بھارتی سیکولر ازم کے دعووں کی قلعی پوری طرح کھل چکی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی برادری کے اکثر حلقے اپنی وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اس انسانی المیے کا خاطر خواہ ڈھنگ سے اعتراف نہیں کر رہے جس کی وجہ سے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جذبات اتنا فروغ پا چکے ہیں کہ BJP جیسی انتہا پسند جماعت بھاری اکثریت سے چوتھی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
مبصرین کے مطابق بابری مسجد کی شہادت میں BJP اور سنگھ پریوار کا جو کردار رہا ہے اس سے تو ایک عالم آگاہ ہے مگر یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ کانگرس سمیت کم و بیش سبھی بھارتی جماعتیں اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر اس جرم میں ملوث ہیں کیونکہ جب یہ جرم سر زد ہوا تو بھارت میں کانگرس کی حکومت تھی اور وزیر اعظم نرسیما راﺅ چاہتے تو اس المیے کو وقوع پذیر ہونے سے رکوا سکتے تھے اور اگر ذرا سا بھی خلوص نیت ہوتا تو اس گھناﺅنے جرم میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا تھا کیونکہ 1996 تک کانگرس کی حکومت قائم رہی تھی ۔اس کے علاوہ مئی 1996 سے اپریل 1997تک دیوی گوڈا بھارتی وزیر اعظم رہے جو خود کو بہت بڑا سیکولر شخص قرار دیتے نہیں تھکتے مگر تب بھی اس غیر انسانی فعل کے مرتکب تمام افراد یونہی کھلے عام پھرتے رہے ۔اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک اندر کمار گجرال بھارتی وزیر اعظم رہے ۔ وہ بھی سیکولر ازم کے بہت بڑے چیمپیئن رہے مگر اس ضمن میں کچھ نہ کر پائے ۔تب مارچ 1998 سے مئی 2004 تک واجپائی کی زیر قیادت BJPکا دورِ حکومت شروع ہوا ۔تب تو گویا بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کی لاٹری نکل آئی۔ ایڈوانی کو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم مقرر کر کے گویا انعام سے نوازا گیا تو ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی مرکزی وزارت کے حقدار قرار پائے ۔ ونے کٹیار کو نہ صرف لوک سبھا رکن بنایا گیا بلکہ وزارت بھی دی گئی ۔ اوما بھارتی کو مدھیہ پردیش کی وزارت اعلیٰ ملی ۔ اسی طرح سوامی چمیانند مرکز میں نائب وزیر داخلہ بنے ۔ اس فہرست میں اور بھی بہت سے نام شامل تھے ۔ خود واجپائی نے دسمبر 2000 میں لوک سبھا میں گوہر افشانی کی کہ ” بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر کی تعمیر تمام بھارتی عوام کی امنگوں کی عکاس ہے اور BJP اس ادھورے ایجنڈے کو بہر طور پورا کرے گی ۔“2014 میں جب سے مودی برسراقتدار آئے ہیں تب سے تو ہندوستانی سے مسلم تشخص مٹائے جانے کی ہر ممکن اور منظم کوشش جاری ہے اور جو شخص مسلمانوں کیخلاف جتنے بڑے جرم کا مرتکب بنتا ہے، اتنے ہی انعام کا حقدار قرار پاتا ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ، وزیر داخلہ امت شاہ اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔
یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم دشمنی میںکانگرس بھی BJP سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں اور وہ دراصل ” سافٹ ہندوتوا“ کی پالیسی پر بتدریج عمل پیرا ہے۔ ماہرین کے مطابق دہلی کے حکمران یوں تو انسان دوستی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر ان کا پول آئے دن کسی نہ کسی صورت میں کھلتا رہتا ہے ۔توجہ طلب امر ہے کہ خود واجپائی نے ہی اس حقیقت کا اعتراف ایک سے زائد بار ان الفاظ میں کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ”بابری“ نہیں بلکہ ” برابری کا ہے“۔ اس کی وضاحت کرتے موصوف نے یہ فلسفہ جھاڑا تھا کہ ”بھارتی مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت اور اس کی تعمیر نو کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنی ساری توانائیوں اس مطالبے کو منظور کرانے کی طرف مبذول کرانی چاہیں کہ انھیں ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبے میں برابری کے حقوق میسر آنے چاہیں“۔ واجپائی کے اس بیان میں جو اعترافِ گناہ پوشیدہ ہے وہ یقیناً عذر گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے مگر بظاہر اس سادہ سی بات میںجو تلخ حقائق چھپے ہیں ان پر پوری عالمی برادری کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی بات پاکستان بھی مسلسل 75 برسوں سے کہہ رہا ہے۔ اور بھارتی مسلمان بھی مسلسل فریاد کرتے رہے ہیں کہ انھیں ہندوستان میں برابری کے شہری حقوق میسر نہیں اور یہ کسی بھی جمہوری معیار کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔ (ختم شد)