میاں شہباز شریف وزارت اعلی سے وزارت عظمی تک


ترقیاتی کاموں اور کارکردگی کے حوالے سے جب بھی بحث چھڑتی ہے تو تجزیہ کارمخمصے کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے کہ داستاں کہاں سے شروع کی جائے۔ یہ بات درست ہے کہ وطن عزیز پر زیادہ عرصہ حکمرانی مسلم لیگ کی نہیں رہی ۔ بے بنیاد الزامات عائد کر کے جمہوری حکومت کو رخصت کیا گیا مگر اس مختصر عرصہ میں جو ترقیاتی کام مسلم لیگ (ن) نے سر انجام دیئے ان کی مثال دیگر حکومتوں میں نہیں ملتی بالخصوص میاں شہباز شریف نے جس اعلی پائے کی ایڈمنسٹریشن پنجاب میں دکھائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ موٹروے، میٹرو بس سروس کی کامیابی میاں شہباز شریف کی ہی مرہون منت ہے۔ میٹرو پر طنز کرنا بہت آسان تھا حتی کہ اس مثالی عوامی منصوبے کو میٹروبس کو جنگلا بس کے نام سے نوازا گیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد اسی جنگلابس کو ملکی ترقی کا ضامن منصوبہ قرار دے کر دیگر صوبوں میں بھی چلانے کا اعلان کیا گیا قومی سطح پر میاں نواز شریف کا سر فخر سے بلندکرنے کا سہرا میاں شہباز شریف کے سر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کا انتظام چلانا آسان نہ تھا۔ مگر میاں شہباز شریف کی شب و روز محنت کا یہ ثمر ہے کہ صوبے کے کونے کونے میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا۔ لوکل ادارے میاں شہباز شریف دو ر میں فعال متحرک اور اعلی کارکردگی دکھا رہے تھے۔ یہ کارکردگی میاں شہباز شریف کی اعلی صلاحیتوں کی مرہون منت ہے۔
 تمام ادارے ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ قومی اداروں میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی یہی وجہ تھی کہ ترقی کا پہیہ رواں دواں تھا۔ میاں نواز شریف سے جب سابق حکومت چھینی گئی تو کیا اس وقت یہی صورتحال تھی جو آج ہے، نہیں ہر گز نہیں۔ اس وقت ڈالڑ کہاں تھا اور اب کہاں ہے۔ کیا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اتنی تھیں جو اب ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ بیچ کے سالوں میں ناقص منصوبہ بندی اور سیاسی عدم استحکام نے ہمیں اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے۔ جس پر ہم آج کھڑے ہیں؟ کچھ لوگ بڑی بے دردی کے ساتھ اس صورتحال کا الزام نواز شریف کو دیتے ہیں یہ رویہ مناسب نہیں۔ ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہئے۔ پورے ملک کو چھوڑ دیں۔ محض پنجاب کو مدنظر رکھیں۔ موٹروے نکال دیں، میٹرو بس کو روک دیں اور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر بات نہ کریں۔ تو پیچے کیا رہ جاتا ہے۔ یہی ناں تانگے، رکشے اور ہارٹ کے عطائی ڈاکٹر، گزشتہ چند سالوں کے دوران انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور میٹرو بس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد کے مسافروں اور مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب سے میاں شہباز شریف نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا ہے ان اداروں میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ میٹرو منصوبے کو نئی وسعت دی گئی خاص طور پر بارہ کہو سے روات تک جو منصوبہ شروع کیا گیا ہے اس سے ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر سفری سہولیات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو چند اقدامات سخت اٹھانے پڑے جس پر حزب مخالف نے واویلا بھی مچایا ۔ سچ یہی ہے کہ میاں شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کو پنجاب سے نکال دیا جائے تو باقی پانچ دریا ہی رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اجتماعی طور پر جس طریقے سے عدالتوں میں گھسیٹا گیا میں اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ان ناانصافیوں کو منظر عام پر نہ لانا بھی بدیانتی ہے جو کہ ماضی قریب میں شریف فیملی کے ساتھ روا رکھی گئی۔ مسلم لیگ میں پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر شریف فیملی چٹان کی طرح ڈٹی ہوئی ہے اور ڈٹی رہے گی۔ وطن عزیز کی غالب آبادی سیلاب سے متاثر ہے۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات نے جو تباہی مچائی ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔ اس پر پوائنٹ سکورنگ کی ضرورت نہیں بلکہ متاثرین کی بحالی کے لئے تمام صوبائی حکومت کو مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ صوبائی حکومتیں آزاد اور خود مختار ہیں انہیں سیلاب سے متاثر خاندانوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں تمام صوبائی حکومتوں کو مرکز کے ساتھ مل بیٹھ کر حکمت عملی اپنانی چاہئے۔یقین واثق ہے کہ میاں شہباز شریف اپنی اعلی صلاحیتوں کو بروائے کار لا کر سیلاب کے متاثرین کی مدد میں سر خرو ہونگے۔ مگر اس نیک کام میں صوبائی حکومتوں کو میری پارٹی اور تیری پارٹی کی رٹ چھوڑ کر مرکز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑے گا ۔ میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالنے کے بعد اسلام آ باد کے لیے جو بھارہ کہو پا س کا منصوبہ دیا ہے وہ کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اس سے قبل دور میں انہوں نے پنڈی اسلام آ باد کو میٹرو کا تحفہ دیا تھا جو کامیابی سے رواں دواں ہے ۔ یقیناََ بھارہ کہو بای پاس منصوبہ ٹریفک کے مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا ۔ اس سے عوام کو مغربی سہولیات بھی میسر ہو نگی اور وقت کی بھی بچت ہو گی ۔

ای پیپر دی نیشن