دنیا کا کوئی بھی کام آپ فطرت اور آئین کے خلاف کریں گے تو اس کا انجام برا ہی ہو گا۔ ہم آج ایک ایسے والد کی کہانی پیش کررہے ہیں جو اپنے منصب سے انصاف نہیں کرتا تھا۔ وہ مٹھی گرم کئے بغیرکام نہیں کرتا تھا ۔اس والد نے اپنے بچوں کو شاہانہ انداز میں پالا، بچوںکو تعلیم دلائی مگر تربیت نہ کر سکا ۔ وہ ریٹائرڈ ہوا ،آرام دہ آخرت کیلئے دین کی طرف آگیا ۔عبادت کے ساتھ حج اور عمرہ بھی ہوا لیکن اسے اپنے ہی گھر میں عزت و احترام نہ ملا ، اولاد نافرمان نکلی ۔ بچے اس کا مذاق اڑاتے ، فقرے کستے ۔حج پر جانے لگا تو کہا گیا ”نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی “ اہلیہ بات بات پر بے توقیر کرتی ۔ بچے اس کے جیتے جی جائیداد کے لئے کورٹ کچہری میں جا پہنچے ۔ ایسا سب کچھ اس لئے ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ کرپشن کرتا رہا ۔ بالآخر دنیا سے خالی ہاتھ چلا گیا ۔ اولاد جنازے میں بھی شامل نہ ہوئی ۔ اللہ کریم ہم سب کو اس طرح کی اذیت ناک صورت حال سے مامون رکھے آمین۔ ہمارے ارد گرد ایساہی حال لوگوں اور اداروں کے” بڑوں“ کا دکھائی دیتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد ایسی ایک دو تین
نہیں بے شمار کہانیاں ہیں ہمارے ” بڑے“ ایوان اقتدار میں آکر وہ کچھ کرتے رہے ہیں جس کی اجازت آئین دیتا تھا نہ قانون۔ کئی صاحبان حلف کی خلاف فرضی بھی فخریہ انداز میں کرتے ۔ بقول فراز
ہر شخص خدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے
کچھ صاحبان اختیار توخدا بن کر حکمرانیاں کرتے رہے ۔ آج مادر وطن بزرگی کی عمر کو پہنچ چکا ہے ۔بچے جوان ہو چکے ،سب کچھ دیکھتے آئے ہیں کہ ہمارے بڑے عوام کے ساتھ کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔ کیسے سیاست دان بناتے رہے، کیسے حکمران آتے رہے ۔ پہلے لانے والوں سے ڈرتے تھے مگر اب نہیں ۔آج کی نسل پوچھتی ہے کہ ہمارے ہاں کب الیکشن فیئر اور فری ہوئے تھے؟ یہاں تو الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی رہی ۔عوام کو ہمیشہ دھوکہ میں رکھا گیا۔ الیکشن کا ٹچ دینے کے لئے ڈبے ووٹ سے بھر دئے جاتے ، اس کے بعد رزلٹ سنا دئے جاتے ۔ ایسا ہی حال فراہمی انصاف کا رہا ۔ذوالفقار ر علی بھٹو کو سزا دینے کا پس منظر سب کو یاد ہے ،سزا دینے والے مکافات عمل کا بھی شکار ہوئے ۔کسی کے جنازے میں مکھیاں حملہ آور ہوئیں اور کوئی پچھتاوے کا زخم سہتا رہا ۔ وہ حکمران جس نے پھانسی دلوانے کی راہ ہموار کی خود بھی پس منظر میں چلا گیا مگر ہم نے پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ ہم یہ خواب سمجھ کر بھول جاتے ہیں ۔ میاں نواز شریف قوم کو بتا چکے ہیں کہ مجھے کہا گیا کہ گھر چلے جاﺅ ۔ جب انکار کیا ایوان انصاف سے مجھے رخصت کرایا گیا ۔حکومتیں بدلتے ہوئے ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ایک ڈرامے کے بعد دوسرا اسٹیج کیا جاتا ہے ۔عمران خان بھی اسی طرح اقتدار میں لائے گئے ۔ خان صاحب جب تک اقتدار میں رہے باجوہ صاحب کے گن گا تے رہے لیکن جب انہیں گھر کا رستہ دکھایا گیا تو وہ سینہ تان کر کھڑے ہو گئے یہ انہیں مختلف ناموں سے پکا تے رہے ۔جنرل باجوہ صاحب نے جاتے جاتے خطاب میں فرمایا کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں لیکن آئندہ ایسا نہیں ہوگا اس پر تحریک انصاف نے یوم نجات کا غلغلہ بھی بلند کیا ۔ یادش بخیر.... لیفٹینٹ جنرل فیض حمید بھی جسٹس شوکت صدیقی سے ملاقات
کرتے رہے۔ اب جنرل عاصم منیر سپہ سالار ہیں ۔امید ہے جنرل عاصم منیر 2025 میں نئے چیف کو سادگی سے چھڑی دینے کی رسم ادا کریں گے جیسے پڑوسی ملک میں یہ ایونٹ ہوتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہو جنرل باجوہ کی طرح دوسرے ادارے بھی قوم کو ایسا ہی پیغام دیں کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ جنرل عاصم منیر کے سینے میں قرآن کریم ہے انشاﷲ وہ برکتوں اور رحمتوں سے قوم کا سر فخر سے بلند کرتے رہیں گے۔