تصویر تری دیکھی جب دیدہ پ±رنم سے
سیراب ہوئیں آنکھیں تب کاسہ شبنم سے
” غیروں سے کہا ت±م نے، غیروں سے س±نا ت±م نے“
جو بات بھی کرنی تھی، کرتے وہ کبھی ہم سے
اِن تخت نشینوں سے ، ہم خاک نشیں اچھّے
یہ جامِ سفالیں تو بہتر ہے خ±مِ جم سے
ساون کی گھٹائیں ہیں، موسم کی ادائیں ہیں
اور غ±نچے ہیں رقصیدہ، ا±س گیسوئے برہم سے
بے دیدہ جو انساں ہوں، انساں وہ نہیں ہوتے
انسان تو انساں ہیں اک جذبہ باہم سے
ظالم یہ مرا دل ہے، مت اِس پہ لگا ضربیں
یہ دل تو ہے مر جاتا اک ضربتِ ماتم سے
میَں جعفری رہتا ہوں جس حلقہ یاراں میں
وہ حلقہ یاراں تو قائم ہے مرے دم سے
ڈاکٹر مقصود جعفری
خوف
خوف کی چادر اتارو
دھوپ کی جانب چلو
"وہ دسمبر "کٹ چکا اب اس دسمبر میں جیو!!
علاج درد بھی ممکن ہے اب گریز نہ کر!
وگرنہ داغ پہ غازہ ٹکے گا کتنی دیر؟
(صائمہ بتول جعفری )