جوانوں کو پیروں کا استاد کر 

بلاول نے اقبال کا شعر پڑھ کر اس مبینہ خانگی لڑائی کا پردہ چاک کردیا ہے جو گھر کی بلند فصیلوں اور بند کمروں کے کواڑوں کے پیچھے جاری تھی۔ جس کی وجہ سے وہ روٹھ کر دوبئی بھی چلے گئے تھے ، باپ نے انہیں کیسے منایا ، لیکن کوئٹہ کی تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ بلاول کا نظریہ اور رویہ نہیں بدلا ، بلاول جیسے خواب ہر نوجوان دیکھتا ہے ، نئی اور پرانی نسل کے جھگڑے نئے نہیں ، اینگری ینگ مین سب کچھ توڑ پھوڑ کر سسٹم کی چولیں ہلاکر ہر چیز کی باگ دوڑ خود سنبھالنا چاہتا ہے ۔ قدامت پسندی اور جدت پسندی پر کتابوں کی کتابیں لکھی گئی ہیں ، اکبر الہٰ آباد ی نے کہا تھا کہ 
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اقبال نے تو ایک شعر میں یہی کہا تھا کہ 
لڑا دے ممولے کو شہباز سے 
بہرحال یہ بحث تاریخی ہے، طویل ہے اور بہت پرانی ہے ، میں اس کا خلاصہ ایک کالم میں کیسے بیان کرسکتا ہوں۔ بلاول کی باتیں سن کر ہر کوئی ان کو یہی مشورہ دے رہا ہے کہ عزیزی ! صبر کرو، حوصلہ کرو، تمہارا وقت بھی آئیگا ، وقت آنے سے پہلے وقت کی لگام کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ بلاول سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ایک کرنیل کو جرنیل کی کرسی پر بٹھایا جاسکتا ہے ؟ کیا اسٹیٹ بنک کا تالا کھولنے اور بند کرنے والے کو گورنر اسٹیٹ بنک لگایا جاسکتا ہے ۔ ؟ کیا وزیراعظم ہائوس کا چپڑاسی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا جاسکتا ہے ؟ دراصل کچھ عرصہ پہلے سیاست میں بلاول ، مریم نواز ، حمزہ شہباز، مونس الہٰی نے منہ مارنا شروع کیا تو کالم نگاروں نے متفقہ طور پر سیاست کا چوسنی گروپ قرار دیا تھا ۔ اب جیسے ہی ان نومولودوں کو چوسنی سے چھٹکارا حاصل ہوا ہے ، تو وہ اپنے بزرگوں کو بڈھے ، کھوسٹ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ 
بلاول پر واضح رہنا چاہئے کہ جب ان کی والدہ محترمہ شہید ہوئیں تو ملک میں شدید افراتفری پھیل گئی ، تو یہ زرداری صاحب ہی تھے جنہوں نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ وہ صدر مملکت بنے تو اپنی مرضی سے وہ تمام اختیارات واپس کردیئے جو آئین نے انہیں دے رکھے تھے ۔ مگر آفرین ہے کہ ایک بے اختیار صدر نے اپنی آئینی مدت پوری کی ، اور بڑے سلیقے سے صدر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا ۔ یہ سیاسی چالیں نابالغ ہرگز نہیں سمجھ سکتے ۔ 
بلاشبہ آج پاکستان میں نوجوان ووٹروں کا تناسب زیادہ ہے ، جمہوریت کے ترازو میں ان کی رائے زیادہ وزن رکھتی ہے ۔ مگر ان کروڑوں نوجوان ووٹروں کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر ایک نظر ڈالنے سے انسان کے پائوں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے ۔ اور پاکستان کا نقشہ لرزنے لگتا ہے ۔ 9مئی 2023ء کو ان نوجوانوں نے جوگل کھلایا، اس پر ہر کوئی نفرین بھیج رہا ہے ۔ یہ نوجوان اپنی ہی فوج کے قلعے تسخیر کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں سرحد پار کے ابھی نندن نظر نہیں آتے۔ نہ پاکستان کے اندر گھس کر وحشیانہ قتل عام کرنے والا کلبھو شن نظر آتا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اپنے جرنیلوں کی وردیاں ہوا میں اچھالیں ، بلکہ لاہور کے جناح ہائوس میں بانی پاکستان کے نادر و نایاب ورثے کو بھی جلاکر خاکستر کردیا ۔ راکھ کردیا۔ غازیوں اور شہیدوں کی تصاویر کو پائوں تلے روندا ، پاکستان کے دشمنوں پر ہیبت طاری کرنے والے میانوالی کے ایف سولہ کے فضائی جنگی اڈے کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کی ۔ یہ کوشش ایک بار ناکامی سے دوچار ہوئی ، تودہشت گردوں کی مدد سے دوسرا ہلہ پھر بولا گیا ، یہ ہے ان نوجوانوں کے کردار کا ایک عکس  جن کی وکالت بلاول صاحب فرمارہے ہیں ۔ ملک میں یہ ایک عجب تماشا لگا ہے کہ عمران خان نے ہسپتال کا چندہ اکٹھا کرنے سے لے کر وزیراعظم بننے تک ایسے ہی جذباتی اور طوفانی نوجوانوں کو استعمال کیا۔ اب ہر سیاسی جماعت کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے کہ وہ دس پندرہ کروڑ نئے نوجوان ووٹروں کو دام تذویر میں لائے ، اور اگلے الیکشن میں اپنا الو سیدھا کرے ، نوجوان تعداد میں کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ، وہ اپنی مرضی سے نمائندے منتخب نہیں کرسکتے ، وہ دن لد گئے ، جب بھٹو کے کھمبوں کو بھی ووٹ مل گئے تھے، بھٹو کو اقتدار ملا ، تو ان کے جیالے اس قدر بپھر گئے تھے کہ وہ کسی بھی دفتر کا دروازہ ٹھڈا مار کر کھولتے ، محکمے کے سیکرٹری کی میز پر جوتیوں سمیت بیٹھ جاتے ۔ اور اپنی مرضی کے آرڈر جاری کرواتے ۔ انہی جیالوں نے بعد میں الذوالفقار بنائی اور ہائی جیکنگ شروع کردی ۔ پچاس سال گذرنے کے باوجود ان جیالوں کو تہذیب اور قانون کے دائرے میں نہیں لایا جاسکا۔ 
اب تحریک انصاف کے یوتھئے ان سے بھی دو ہاتھ نکل گئے ہیں ۔ انہوں نے گالی گلوچ اور مادر پدر آزادی کا ایک سونامی برپا کررکھا تھا۔ ان کو کسی رشتے کی پہچان نہیں ، کسی مذہب سے واسطہ نہیں ۔ کسی آئین کی پرواہ نہیں، وہ اپنی اول فول باتیں ہانکے چلے جارہے ہیں ۔ معلوم نہیں ، بلاول صاحب اقبال کے اس شعر کا اطلاق ان شتر بے مہار یوتھیوں پر بھی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں……بلاول صاحب کے لئے پھر عرض ہے کہ وہ صبر کریں اور فطری عمل پر ایمان رکھیں ۔ پہلے بیج کو مٹی میں ڈالا جاتا ہے ، پھر ہری بھری کونپلیں پھوٹتی ہیں ، پھر ایک تناور پودا ثمر بار ہوتا ہے ، یا شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرتا ہے ۔ بلاول کو اپنے والد محترم کے نظریات پر فخر ہونا چاہئے۔ اور وہ اپنی باری کے لئے بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں ۔ ورنہ پھر کسی شاعر کو کہنا پڑے گا:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بلاول ایک بھولا بھالا لڑکا ہے ، اس کے لئے ایک اور شاعر نے حسبِ حال شعر لکھا ہے :
ابھی کمسن ہو رہنے دو کہیں کھو دوگے دل میرا
تمہارے ہی لئے رکھا ہے، لے لینا جواں ہوکر 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن