عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
سندھی ثقافت کی جب بات ہو تو ذہن میں عام تصورصوبہ سندھ کا آتا۔لیکن اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو سندھی ثقافت کی جڑیں وادی سندھ کی تہذیب سے جڑی ہیں۔ وادی سندھ کی تہذیب سنہ 3800 سے 1300 قبل مسیح تک قائم رہنے والی چند ابتدائی انسانی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادی سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ہڑپہ اور موہنجوداڑو اس کے اہم مراکز تھے۔دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذیب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑیاں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیء سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔سوتی کپڑا جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔
خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمدن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی اور یہاں کے باشندے اس سے پہلے جنگلی ،تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھے۔ مگر بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس وادی کی تاریخ کے ڈیرھ ہزارسال پیچھے شواہد ثابت کر دیئے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ آریاؤں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا۔ اجرک کی بات کریں تو سندھ کی سب سے بڑی اور مقبول پہچان ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ سندھ کی یہ پہچان ایک قدیم تاریخ رکھتی ہے، انڈس ویلی سولائزیشن کے وقت سے اجرک اور شال میں سے مماثلت پائی گئی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اجرک کی تاریخ کئی سوسال پرانی ہے۔
سندھ میں اجرک کو خاص تحفے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ ثقافتی رنگ شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک خاص تحفے کے طور پر جوڑے کو دیا جاتا ہے۔ اجرک میں لال، سفید اور کالا رنگ پایا جاتا ہے، جبکہ اجرک کا کپڑا ایسا ہے جو کہ سردیوں میں راحت بخشتا ہے۔لیکن اگر اجرک کے قدیم رنگ کی بات کریں تو وہ نیلا ہے۔آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اْس وقت کے دستکار ہاتھ کی کھڈیوں پر بنے کپڑے کو 100 جڑی بوٹیوں سے رنگنے کے بعد انہی جڑی بوٹیوں کے ذریعے نیلا رنگ تیار کر کے ٹھپے لگا کر اجرکیں بناتے تھے۔ اجرک سندھ سے عرب علاقوں میں بھی گئی جہاں اسے ازرق کہا جانے لگا۔ قدیم زمانے میں اجرک پر جانوروں اور پرندوں کی تصاویر بھی بنائی جاتی تھیں، لیکن سندھ میں اسلام کی آمد کے بعد ان تصاویر کی بجائے جیومیٹری کی مختلف اشکال اجرک پر بنائے جانے لگیں۔ اجرک بنانے کیلئے 32 مرکبات استعمال ہوتے ہیں اور اس پر 5900 ٹھپے لگتے ہیں، یہ تین چار ہفتوںمیں تیار ہوتی ہے اور سندھ کی ایک بڑی گھریلو صنعت بھی ہے۔
آج اجرک صرف سندھ کی ثقافت ہی نہیں بلکہ ملک کے معاشرتی تہذیب و تمدن اور اقدار کی علامت بن چکی ہے، اور سیاسی و سماجی تقاریب میں شرکاء اور معزز مہمانوں کو تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ثقافت میں سندھی ٹوپی بھی اپنی مثال آپ ہے، اس ٹوپی میں جیومیٹری کے سرکل، ٹرائی اینگل سمیت مخلتف سائن کی طرح کی نقش و نگاری کی جاتی ہے۔ جبکہ اس نقش و نگاری میں شیشہ کا بھی استعمال ہوتا ہے، رنگ برنگی دھاگے اس ٹوپی کو منفرد اور آرٹ کا شاہکار بنا کر پیش کرتے ہیں۔رلی یا سندھی رلی، سندھ میں خواتین کی جانب سے اپنے گھروں میں بنائی جاتی ہے۔ اس رلی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کاٹن کے ان کپڑوں کا استعمال کیا جاتا تھا جو کہ استعمال کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ یہ رلیاں خواتین اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتی تھیں۔ثقافتی طور پر بنائی جانے والی رلیوں کو اب کمرشل بنیادوں بھی بنایا جاتا ہے۔
کسی خطے کے ثقافتی کوائف زیادہ تر اس علاقے کی زبان سے ہی عبارت ہوتے ہیں۔سندھی زبان میں لوک ادب کا زبردست اور حیران کن ذخیرہ موجود ہے۔ لوک کہانیاں، لوک داستانیں اور لوک شاعری کسی حیرت کدے سے کم نہیں، علاوہ ازیں لیلیٰ مجنوں شیریں فرہاد ، سیف المکوک اور بدیع الجمال، ہیر رانجھا، یوسف زلیخا، سلیمان اور بلقیس،مل محمود اور مہر سنگسار جیسی عشقیہ داستانوں کا سندھ کی دھرتی سے کوئی تعلق نہیں، تاہم یہ سندھی ثقافت میں اس طرح گہرائی سے شامل ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر سندھی لوک ادب مکمل ہی نہیں ہوتا۔یہاں کے مقامی قصوں کو بھی سندھی ادب وشاعری میں نمایاں جگہ حاصل ہے۔ یہاں کی لوک شاعری کی اصناف،مثلاً لوری، مورو ، سہرا ، وغیرہ سندھی عوام میں صدیوں سے بے حد مقبول رہی ہیں۔ پیرو کھٹی، جلال کھٹی، شیخ حماد جمالی ، وغیرہ سندھی لوک ادب کے وہ ستون ہیں ، جن کے بغیر سندھی لوک اور ثقافتی شاعری کا تصور بھی ممکن نہیں۔اگر موسیقی کی بات کریں تو موسیقی کو سندھ میں اس قدر اہمیت حاصل رہی ہے کہ ’’گھر گھر راگ،گھر گھر ڈھولک‘‘ کی کہاوت مشہور ہوگئی۔ سندھی موسیقی بنیادی طور پر لوک موسیقی ہی ہے۔موئن جودڑو سے دریافت شدہ ڈانسنگ گرل اور بھنبھور کے آبشاروں سے ملی ایک ناچنے والے جوڑے کی مورتی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں موسیقی عہد قدیم سے کئی شکلوں میں رقص کیساتھ رائج ہے،اس کے ساتھ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب فصلیں پک جاتی تھیں تو کنوارے لڑکے اور لڑکیاں رقص کرتے تھے۔ موئن جو دڑو سے دریافت شدہ ڈانسنگ گرل (رقاصہ) کے مجسمے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں رقص کی روایت اپنے عروج پر تھی۔سندھ میں رقص کی کئی اقسام مروج ہیں۔ شادیوں اور مختلف تہواروں کے موقعوں پر رقص بی حد ضروری ہوتا ہے۔ ہوجمالو، جھومر، ٹلو، راسوڑو، چھنو، ہنبوچھی، کھگی وغیرہ سندھ کے مقبول رقص ہیں۔
صدیوں پرانی تہذیب سے نئی نسل کو روشناس کروانے کے لیے گذشتہ چند سالوں سے ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو منایا جانے والے سندھی یوم ثقافت کو سندھ کے باسی عید کے تہوار کی طرح مناتے ہیں، اس سلسلے میں گذشتہ اتوار بھی ہر کوئی سندھ کے روایتی رنگوں میں رنگا ہوا تھا، سندھی ٹوپی اور اجرک زیب تن کیے سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس دن کو بھرپور انداز سے منایا گیا۔ جگہ جگہ مختلف تقریبات میں سندھی ثقافتی ٹیبلو پیش کرکے یا علاقائی گیتوں پر والہانہ جھوم کر اپنی ثقافت سے محبت کا اظہار ہوا۔کراچی کے مختلف مقامات پر سندھی کلچرل ڈے کے حوالے سے تقریبات میں بچے، بڑے اور نوجوان نے روایتی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔نوجوان نے سندھی نغموں اور لوک دھنوں پر رقص کیا جبکہ بچوں کی جانب سے ٹیبلو پیش کرکے سندھ کی ثقافت کے حسین رنگ کو اجاگر کیا گیا۔ نوجوان، بچے اور بوڑھے ان تقریبات میں شرکت کے لئے سندھی اجرک، ٹوپی اور لباس میں ملبوس ہوکر گھروں سے نکلے۔
سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے موٹر سائیکل پر ریلیاں بھی نکلیں جن پر سندھی ٹوپی، اجرک اور پگڑیوں میں ملبوس نوجوان سندھ کے لوک گیتوں کی دھنوں پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔سندھ میں ثقافتی دن کے موقع پر مرد حضرات اس خاص دن پر ٹوپی، سفید شلوار قمیض اور اجرک کو پہننا پسند کرتے ہیں۔
موجاری، کھوسے یا سلیم شاہی، سندھ میں ان جوتوں کو ایک خاص نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خواتین ان کھوسوں کو خاص ثقافتی دن یا خاص تقریبات میں پہننا پسند کرتی ہیں۔ اس خاص دن پر سندھی گھرانے جہاں کہیں مقیم ہوں بریانی کی خوشبو سے ماحول کومہکا دیتے ہیں، سندھی بریانی سندھ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اس بریانی میں 20 مختلف مصالحوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ مچھلی کی بریانی بھی سندھ کی ایک خاص ڈش ہے جس کا اہتمام سندھی ثقافتی دن پر ہوتا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے تمام اہل وطن اور سندھیوں کو ثقافت کا دن منانے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کی ثقافت امن ، محبت ،بہادری مہمان نوازی کی تاریخ ہے۔قومیں اپنی ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں۔ یوم ثقافت سندھ پراپنے پیغام میں بلاول بھٹوزرداری نے کہاکہ سندھ کے لوگ تاریخی طور پر امن رواداری پسند اور وطن دوست ہیں، اہلیانِ سندھ فن و فطرت سے پیار کرنے والے بھی ہیں۔بامقصد ثقافتی سرگرمیاں معاشرے میں نفرت تقسیم اور شدت پسند سوچ کے لیے تریاق ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی تمام ثقافتوں کو مساوی اہمیت و درجہ دیتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی مرکزی صدر فریال تالپور نے یوم ثقافت سندھ پر اپنے پیغام میں کہا کہ وادی مہران کی ثقافت 5 ہزار سال قدیم اور عظیم تہذیب کی آئینہ دار ہے‘ سندھ ٹوپی‘ اجرک‘ آرٹ اور سندھی زبان کی ایک الگ پہچان ہے۔
ایک خوش آئند امر یہ بھی ہوا کہ ترجمان امریکی سفارتخانہ ہیٹر مرفی نے سندھی لباس زیب تن کر کے سندھیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔قومیں زندہ تبھی رہتی ہیں جب وہ اپنی اساس سے جڑی رہیں۔سندھی کلچر ڈے منانے کی وجہ سے نا صرف نوجوان نسل اپنی ثقافت سے روشناس ہورہی بلکہ عالمی برادری بھی سندھو دریا کی تہذیب سے واقف ہورہی ہے۔