آج سیاسی رہنماؤں کے کچھ بیانات آپ کے سامنے رکھتا ہوں پھر ان بیانات پر بات کرتے ہیں۔ یہ بیانات پڑھ کر آپ سمجھ جائیں گے کہ درحقیقت پاکستان کے مسائل کی اصل اور بڑی وجہ کیا ہے۔ سیاسی انتشار، عدم استحکام کیوں ہیں، حکومتیں کیوں ناکام ہوتی ہیں، معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کیوں آتے ہیں۔ آج آپ اخبارات پڑھیں۔ سیاسی قیادت کے خیالات آپ پر واضح ہو جائیں گے۔ یہ کسی بھی حال میں خوش نہیں ہوتے ، یہ کسی حال میں بھی مثبت نہیں ہوتے، یہ کسی حال میں ذاتی مفادات کو پیچھے نہیں چھوڑتے، یہ کسی حال میں اپنے سیاسی فائدے کو نظر انداز نہیں کرتے۔ سب سے پہلے سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔ موصوف فرماتے ہیں
"سائفر کیس میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے ڈونلڈ لو کے کہنے پر سب کچھ کیا، جنرل ریٹائرڈ باجوہ کو عدالت بلاؤں گا۔ اس کیس میں جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور امریکی سفارت خانے کے آفیشلز کو گواہ بناؤں گا۔خاور مانیکا کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے بشریٰ بی بی کی شکل دیکھی ہی تب تھی جس دن نکاح کیا تھا۔"
اب عمران خان سے کوئی پوچھے کہ وہ کب تک یوٹرن لیتے رہیں گے اور قوم کو گمراہ کرتے رہیں گے، کیا انہوں نے نہیں کہا تھا کہ بیرونی سازش یا مداخلت والا معاملہ ان کی نظر میں ختم ہو چکا ہے، کیا اس حوالے آڈیو لیکس نے بھانڈا نہیں پھوڑا، کیا اس حوالے سے ان کے ساتھیوں کے بیانات ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر سب چیزیں کھل کر سامنے آ چکی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر ماضی میں گھومنے جا رہے ہیں۔ کیا آج بھی وہ دو ہزار دو میں زندگی گذار رہے ہیں۔ کیا آج بھی ان کا طرز سیاست وہی ہے جو دو ہزار گیارہ سے دو ہزار اٹھارہ تک تھا اور پھر دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار بائیس تک رہا ہے۔ انہوں نے ماضی سے کیا سبق سیکھا ہے، کیوں بار بار ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، ایسے واقعات دہراتے ہیں جن کا ملک و قوم کو فائدہ تو نہیں البتہ نقصان ضرور ہو سکتا ہے، ایسے بیانات سے کیا حاصل ہونا ہے۔ نجانے کب انہیں یہ سمجھ آئے گی کہ آگے بڑھنے کے لیے ماضی کے ناخوشگوار واقعات سے نکلنا پڑتا ہے۔ یہ قوم کو کیوں نہیں بتاتے کہ کچھ اہمیت "آج" کی بھی ہے اور بہت زیادہ اہمیت آنے والے کل کی بھی ہے لیکن ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ ہم نہ آج کی بات کرتے ہیں نہ آنے والا کل ہمارا موضوع اور ہدف ہے۔ ہم ماضی اور آلودہ ماضی میں زندگی گذارنا اور اسی آلودہ ماضی میں اپنی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور یہی کرتے جا رہے ہیں۔ ہم گاؤں شہروں میں بدل رہے ہیں، بلند و بالا عمارتیں بن رہی ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑنے لگی ہیں بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن اگر نہیں بدلی تو وہ ہماری آلودہ سوچ نہیں بدلی، یہی آلودہ سیاست ہماری ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج عمران خان کو ایک سابق آرمی چیف اچھے نہیں لگتے لیکن گذرے وقتوں میں وہ ان سے پوچھے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے ہوں گے، سونے جاگنے کے اوقات بھی ان سے پوچھ کر طے کرتے ہوں گے۔ اگر ہمت ہے تو سچ بولیں پورا سچ بولیں ورنہ خاموش رہیں اور ملک کو آگے بڑھنے دیں۔
ہماری سیاسی قیادت کہتی تو ہے کہ نوے کی دہائی والی سیاست نہیں کرنی لیکن کرتے پھر وہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو مستقبل کے بجائے ماضی کے واقعات پر سادہ لوح اور معصوم لوگوں کو گھماتے رہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان فرماتے ہیں کہ "پندرہ سال پہلے یہودی لابی کے ایجنٹ کو پہچان لیا تھا۔ یہودیوں کے ایجنٹ کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینکا جس پر فخر ہے، ہم نے اس فتنے کو شکست دی ، آج وہ جیل میں مکافاتِ عمل کا شکار ہے۔ آج اس کی جماعت میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ اپنی پارٹی کے الیکشن کرا سکے۔ تحریک انصاف دربدر اور اس کے رہنما بِلوں میں گْھسے ہوئے ہیں، پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ بنائی ہوئی پارٹی ہے۔" مولانا سے کوئی پوچھے بات کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے آپ گذرے پندرہ برسوں کا حوالہ تو دے رہے ہیں کیا آپ یا آپ کے ساتھیوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ آنے والے پندرہ برس کا پلان دیں، ملک کے مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تجویز کریں، یہ جلسے، کانفرنس اور اجتماع قوم کو تقسیم کرنے کے علاوہ کچھ کر سکتے ہیں تو بتائیں۔ سو مولانا فضل الرحمن کا مسئلہ بھی وہی ہے جو عمران خان کا ہے دونوں آلودہ ماضی میں پھنسے رہتے ہیں اور اپنے ووٹرز کو بھی اس سے نہیں نکلنے دیتے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ ہر دور میں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ کسی بھی غیر سیاسی شخصیت کو حکومت ملتی ہے یا کوئی ایسا جو شریک ہولڈر نہ ہو آتا ہے اور پھر یہ سب اسے تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں۔ ان دنوں بھی یہی حالات ہیں۔ اب اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کو برقرار رکھنے، دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں، ڈولتی اور ڈوبتی ہوئی معیشت میں بہتری کی امید ہے، سٹاک ایکسچینج میں بہتری آ رہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو سکون کریں، حوصلے سے کام لیں، مسئلہ کیا ہے، جب یہ حکومت میں ہوتے ہیں تو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارتے ہیں، بدانتظامی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب تمام اعشاریے منفی ہونے لگتے ہیں تو پھر سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہوتی ہے۔ سب اپنا آپ بچانے لگتے ہیں۔ تو اب کچھ سبق حاصل کریں کچھ تو سوچ بدلیں۔ رہنما بنیں، قوم کو آگے بڑھنے کے راستے بتائیں۔ آلودہ اور تکلیف دہ ماضی سے نکلیں۔ آج اور آنے والے کل کا سوچیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کو پڑھیں، فرماتے ہیں "جو کہتے ہیں ہم نے لاہور بنایا ان سے پوچھیں کہ باقی ملک میں کیا بنایا؟ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کو کل یاد آیا کہ انہوں نے لاہور بنایا ہے، یہ پیغام ہیکہ وہ لاہور کو ہی پاکستان سمجھتے ہیں، احسن اقبال کی جماعت نے تین بار ملک پر حکومت کی، بتائیں پاکستان کے لئے کیا کیا؟ آپ تین دفعہ اقتدار میں آئے ، بتائیں ایک بھی ہسپتال بنایا ہو؟ ہماری لیڈر شپ علاج کے لیے باہر نہیں جاتی۔کراچی میں ہیلتھ کی سب سے بہتر سہولتیں ہیں، ہیلتھ سے بڑھ کر کوئی شعبہ نہیں، سڑکیں اور فلائی اوور بعد میں دیکھ لیں گے، ہم کہتے ہیں جان ہے تو جہان ہے، ہیلتھ سیکٹر میں کوئی بھی پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔"
شرجیل میمن اپنے صوبے اور بالخصوص کراچی کی سڑکوں اور پینے کے پانی کا حال بتائیں، ٹرانسپورٹ کا بتائیں، کراچی کے بنیادی مسائل کا بتائیں، وہ سندھ میں کتنی مرتبہ حکومت کر چکے ہیں یہ بتائیں، قوم کے سامنے اپنے کام رکھیں، لاہور کو نشانہ بنانے کا مطلب صوبائیت کو ہوا دینا ہے۔ کچھ کام کریں، کوئی سبق حاصل کریں، سڑکیں بنیادی ڈھانچے میں بہت اہمیت رکھتی ہیں اس لیے اگر آپ سندھ میں سڑکیں نہیں بنا سکے تو یہ دلیل نہیں کہ صحت کے شعبے پر توجہ دی ہے۔ اس شعبے کا جو حال آپ کی جماعت نے کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہرگز نہیں۔ لہذا بڑے ہو جائیں اور کام کی باتیں کیا کریں۔
آخر میں کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
آئے ہیں سمجھانے لوگ
ہیں کتنے دیوانے لوگ
وقت پہ کام نہیں آتے ہیں
یہ جانے پہچانے لوگ
جیسے ہم ان میں پیتے ہیں
لائے ہیں پیمانے لوگ
فرزانوں سے کیا بن آئے
ہم تو ہیں دیوانے لوگ
اب جب مجھ کو ہوش نہیں ہے
آئے ہیں سمجھانے لوگ
دیر و حرم میں چین جو ملتا
کیوں جاتے میخانے لوگ
جان کے سب کچھ کچھ بھی نہ جانیں
ہیں کتنے انجانے لوگ
جینا پہلے ہی الجھن تھا
اور لگے الجھانے لوگ