گلوبل ویلج:مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
چند ماہ پہلے تک پاکستان میں خفیہ آڈیو ویڈیو زریکارڈنگ اور ان کے لیک ہونے کا ایک طوفان اُمڈا ہوا تھا ۔ یہ ویڈیوز ملکوں کی جاسوسوں کی ویڈیو نہیں تھیں جو قومی مفادت کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔ یہ ویڈیوز اپنے سیاسی مخالفین کی تھیں جن کا مقصد ان کو بدنام کرنا، ان کی کردارکشی کرنا اور ان کو بلیک میلنگ کرنا تھا۔ یہ سلسلہ تھوڑا سا اس وقت کم ہوا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سخت ایکشن لیا گیا۔ حکومت اور ایجنسیوں سے سوالات کیے گئے۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ کس کی اجازت سے کون ریکارڈنگ کر سکتا اور اب کون کر رہا ہے۔ سختی سے پوچھنے کا تھوڑا سا اثر ضرور ہوا کہ یہ سلسلہ بہت زیادہ کم ہو گیا لیکن اب پھر ایک نئی آڈیو سامنے آئی ہے۔ یہ آڈیو عمران خان کے وکیل لطیف خان کھوسہ اور عمران کی اہلیہ بشری بیگم کے مابین ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے۔ جس میں دونوں کی طرف سے عمران خان کی ہمشیرہ کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ اس آڈیو کا وائرل کرنا کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ بتایا جائے کہ عمران خان کے خاندان میں سیاسی چپقلش شروع ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی طرف سے کیس کی سماعت کے دوران جس طرح سے سخت ریمارکس دیئے گئے تھے اور جو سوالات پوچھے گئے تھے وہ سارا کچھ بھی اسی لیک ہونے والی آڈیو پر بھی لاگوہو سکتا ہے۔ پوچھا جائے گا کہ یہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی، کن مقاصد کے لیے ریکارڈ کی گئی اور اس کے لیے جیسا کہ پہلے حکم دیا جا چکا ہے کہ اگر کسی کی ایسی ریکارڈنگ کرنی ہے تو اس کی باقاعدہ اجازت لی جائے تو کیا یہ اجازت لی گئی تھی۔ ایسا ہرگز بادی النظر میں نظر نہیں آتا ہے۔ پاکستان میں آڈیو اور ویڈیوز کے اس طرح ریکارڈ کرنے اور ان کو بلیک میلنگ ،کردار کشی اور بدنامی کے لیے استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنیکی کوششیں سامنے آ چکی ہیں۔ عدلیہ پر بھی اور بڑے بڑے اداروں پر بھی اثرانداز ہونے کے لیے ایسی آڈیو ویڈیوز سامنے لائی گئی تھیں۔ ایک پارٹی لیڈر کی طرف سے باقاعدہ یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ان کے پاس بڑے بڑے لوگوں کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ایسے لیڈر پاکستان کے وزیراعظم بننے کے بھی امیدوار رہے ہیں، انداز کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایسے لیڈروں کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار واقعی آ جائے تو پھر ہماری اخلاقیات کی کیا منزل ہو گی۔
قارئین!دنیا بھر میں آزادی اظہار کا احترام سب سے بڑھ کر ہے، اسی طرح پرائیویسی یعنی کسی کے ذاتی معاملات کو سیاست، بزنس، ملازمت اور ریاستی معاملات میں گھسیٹا نہیں جاتا اور ایسا کرنے والا یورپ اور دنیا بھر میں قابلِ نفرت سمجھا جاتا ہے۔میں گذشتہ چار دہائیوں سے ویسٹرن ممالک اور دنیا کے دیگر بیشتر ممالک میں یہ دیکھ چکا ہوں کہ کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت قتل سے بھی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کھیل کو مذہب کارنگ دے کر کسی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا ایک عوامی اور قومی مشغلہ بن کے رہ گیا ہے۔قارئین! حقیقی نظر سے دیکھا جائے کہ آج کے جدید ترقی یافتہ اور ڈیجیٹل دور میں الیکٹرونک اور سائنس نے اتنی ترقی کر رکھی ہے کہ آپ اپنے گھر کے لان میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہوں تو سیٹلائٹ کے ذریعے اس اخبار کی خبر دیکھی جا سکتی ہے۔اسی طرح ہر شخص کی پاکٹ میں ایک عدد سمارٹ فون یا کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ کی صورت میں ایک ’’ڈیجیٹل چِپ‘‘ ہر وقت موجود ہوتی ہے۔یہ دراصل آپ کی لوکیش ،آپ کی آواز اور حتیٰ کہ سیٹلائٹ سے منسلک ہو جانے کے بعد آپ کی ویڈیو تک بھی بنا سکتی ہے۔تو اس طرح ترقی کے اس جدید دور میں ہم سب اس حمام میںننگے ہیں۔چاہے کوئی مولوی یاعالمِ دین ہو ، سیاستدان، بزنس مین ، فوجی جرنیل، جج یا بیوروکریٹ ہو حتیٰ کہ ہم عام کسان اور مزدور بھی اس کی دسترس سے محفوظ نہیں ۔قارئین! خدا تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں خود فرماتا ہے کہ:’’ تم دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالو ،خدا تمہارے عیب پر پردہ ڈالے گا‘‘اس لیے پاکستان کو اس اخلاقی کرپشن کی دلدل سے نکالنے کے لیے ہمیں مدمقابل کی ذاتی زندگی کو بلیک میل کرنے کے ان عوامل کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ورنہ بحیثیت قوم ہم تباہی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔
ادھر عمران خان کی طرف سے ایک بار پھر موروثی سیاست کی بیخ کنی کی گئی ہے۔ عمران خان کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا تھا کہ وہ انٹراپارٹی الیکشن میں چیئرمین شپ کے امیدوار ہوں ۔تحریک انصاف کی طرف سے باقاعدہ انتخابات ہو چکے تھے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابا ت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پہلے بھی ان انتخابات کو غیرقانونی قرار دے کر بلّے کا نشان واپس لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ تحریک انصاف کی طرف سے اس کیس کو، کو نٹیسٹ کیا گیا تو الیکشن کمیشن نے پھر سے انتخابات کروانے کا حکم دیدیا۔ عمران خان توشہ خانہ کیس میں نااہل ہو چکے ہیںاور عمران خان کی سزا معطل ہو چکی ہے تاہم فیصلہ معطل نہیں ہوا تھا۔ فیصلے کے معطل ہونے کا بھی امکان ہے لیکن اس سے پہلے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا۔ عمران خان اگر انتخابات میں حصہ لیتے تو بلے کا نشان اس بنیاد تحریک انصاف کو نہ دیا جاتا کہ انتخاب بھی غیر قانونی ہے تو عمران خان کی طرف سے بلّے کا نشان اپنی پارٹی کے لیے بچانے کی خاطر انہوں نے اپنی جگہ بیرسٹر گوہر کو چیئرمین کا امیدوار نامزد کر دیا۔وہ بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔ یہ عمران خان کی طرف سے پھینکا گیامجبوری کے عالم میں ترپ کا پتا ہے جس نے ایک بار پھر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو ایکسپوز کر دیا ہے۔ عمران خان نے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک اور بہت بڑا فیصلہ کیا ۔ عمران خان چیئرمین کے لیے اپنی اہلیہ یا اپنی بہنوں میں سے کسی کو نامزد کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اقربا پرور ی اور موروثی سیاست سے خود کوا ور پارٹی کو بہت دور رکھا۔ بیرسٹر گوہر اعتزاز احسن کے چیمبر سے منسلک ہیں،اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں ، عمران خان کی وکالت بھی کرتے ہیں۔لیکن ان کا پاکستان کی سیاست میں اتنا بڑا نام نہیں تھا کہ وہ کسی بڑی پارٹی بلکہ آج پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے چیئرمین ہو جاتے، یوں سمجھ لیجیے کہ عمران خان ایک اور عثمان بزدار کو سامنے لے آئے ہیں وہ عثمان بزدار تو وسیم اکرم پلس نہ بن سکا ۔بیرسٹر گوہر ہو سکتا ہے کہ وسیم اکرم پلس بن کر دکھا دیں۔
مجھے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں سینئر ترین لوگ نظر آتے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے تو اپنے والد کو بھی میاں نوازشریف کو دونوں پارٹیوں کے سینئر لیڈروں کو بابے کہا گیا، بوڑھے کہا گیا اور ان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ گھر بیٹھیں، سیاست کو چھوڑ دیں یہ ان کے بس کا کام نہیں رہا۔ یہ آپس میں لڑتے رہے ،جھگڑتے رہے ملک نے ترقی نہیںکی ،ہم جیسے نوجوانوں کو سامنے آنے دیا جائے۔ اس پر آصف علی زرداری کی طرف سے شدید ردعمل کا بھی اظہار کیا گیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ بلاول اب بھی زیر تربیت ہے، اس کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کا فیصلہ پارٹی کرے گی جب کہ اس سے پہلے آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ میں بلاول کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں، باپ بیٹے میں کافی زیادہ دوری تھی جو نظر نہیں آتی تھی ۔اس موقع پر واضح ہو گیا کہ دونوں میں کتنے سیاسی اختلافات ہیں۔تاہم جب احساس ہوا کہ یہ ایک تو مذاق بنے کا، دوسرا پارٹی کو شدید نقصان ہو گا تو دونوں باپ بیٹا پھربظاہر ایک ہو گئے۔ آصف علی زرداری کی طرف سے اب یہ کہاگیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری دنیا کا سب سے کم عمر وزیراعظم ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے جس طرح سے سینئر لیڈرشپ کی توہین کی گئی،تضحیک کی گئی اس پر افسوس ہوتا ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید کا آکسفورڈ سے پڑھا ہوا بیٹا اس طرح کی زبان استعمال کرتا ہے نہ صرف سینئر لیڈروں کے لیے بلکہ اپنے والد محترم کے لیے بھی ۔میں جب ان لیڈروں کو دیکھتا ہوں خورشیدشاہ، قائم علی شاہ ،فرحت اللہ بابر، ادھر مسلم لیگ (ن) میں خواجہ آصف ، خرم دستگیر، احسن اقبال، راجہ ظفر الحق تو ان پر ترس آتا ہے۔ بچہ سکول جاتا ہے تو پہلا درجہ ،دوسرا درجہ اور آخری درجے پر پہنچ جاتا ہے ،ماسٹر کر لیتا ہے، پی ایچ ڈی کر لیتا ہے لیکن یہ ہمارے سیاستدان یہ ایک سطح پر آ کر ان کی ترقی رُک جاتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی کا صدر ،چیئرمین، سربراہ نہیں بن سکتا جب بھی کوئی سیٹ خالی ہوتی ہے تو اس پر بیٹے کو، بیٹی کو، بھائی کو، داماد کو، سسر کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے ۔ عمران خان نے ان سب کو سبق دیا ہے کہ پارٹیاں اقربا پروری اور موروثیت کے بغیر بھی چل سکتی ہیں۔