بدلا ہوا پاکستان۔۔۔۔

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                                                                                    :تجا ہلِ عا رفانہ                             
اب تو ہر گزرتا دن یا دوں کے بھنور میں جاگرتا ہے۔ بچپن لڑکپن کے دن سہانے لگتے ہیں۔ انسان، خاندان، معاشرے، قومیں اور ملک ہمیشہ چار چیزوں سے پہچانے جاتے ہیں جن میں انسانیت اور اخلاقیات کا پہلانمبر ہے۔ تیسرے نمبر پر معا شیات ہے اور چوتھے نمبر پر محنت ہنر ذہانت ایمانداری آتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں پاکستان کے اندر یہ سب چیزیں تھیں۔ بکثرت نہیں تھیں لیکن عام تھیں۔ لوگ ایکدوسرے کے پائوں سے کانٹے بھی نکالتے تھے۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام بھی آتے تھے۔ جس گھر میں مرگ ہو جاتی تھی وہاں رشتے داروں سے پہلے محلے والے آجاتے تھے۔ سارا انتظام اہلِ محلہ کرتے۔ گھر والے تو بے سُدھ اور رونے پیٹنے میں لگے ہوتے تھے۔ محلے والے تین دن متواتر ناشتے کھانے پینے کا انتظام کرتے۔ رشتے داروں کا خیال کرتے۔ رشتے دار آتے تو چا لیسویں تک وہ ایسا بندوبست کرتے کہ لواحقین کو خرچے پانی، کام کاج کی ضرورت نہ پڑتی۔ ظاہر ہے وہ اپنی قیمتی متا ع کھونے کے صدمے میں ہوتے تھے۔ رشتے دار باری باری ہفتہ ہفتہ کر کے رہتے اور تین دن گھر میں چو لہا نہ جلتا لیکن آج ادھر کسی کی موت ہو ئی اور چند گھنٹے بعد چو لہے پر چائے کی کیتلی رکھ دی گئی۔ محلے والے شام کو یا قُل پر رسماًآدھا ایک گھنٹہ کو آکر چمپت ہو گئے۔ رشتے دار بھی جنازہ پڑھاکر یہ جا وہ جا!! یہی صورتحال شادی پر ہوتی تھی۔ جس گھر میں شادی ہوتی۔ وہ ایک ہفتہ پہلے دولہن کی طرح سجا دیا جاتا۔ ایک ماہ تک گھر میں اس قدر چہل پہل اور رونق ہوتی تھی کہ گھر بھی دولہن لگتا تھا۔ محلے والے دو تین ہفتے پہلے ہی آکر کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ جہیز یا بری کا سامان تیار کراتے۔ ڈھولکی پر گیت بجتے اور لڑکیاں عورتیں گوٹے کناری سلائی کڑھائی اور پیکنگ میںمدد کرتیں۔ لڑکے گھر کو سجاتے۔ لائٹیں لگاتے۔ شا میانے اور کرسیاں میزیں خود اپنے ہاتھوں سے لگا تے۔ سٹیج سجاتے۔ دیگیں پکواتے، برتن اور کھانا لگواتے بلکہ خو د serveکرتے۔بھاگ بھاگ کر بازار جاتے۔ اگر محلے یا رشتہ داروں میں کوئی ناراض ہوتا یا دشمنی بھی ہوتی تو اس موقع پر سب دشمنی نفرت اور ناراضگی کو ختم کر کے گلے لگالیتے۔ دشمن کی بیٹی بھی ہوتی تو اُسے دعائوں میں رخصت کرتے۔ بیٹا ہوتا تو اُس کی مایوں سے سہرا بندی، بارات، ولیمے، چھوتی تک ہر موقع پر خوشی خوشی حصہ لیتے۔ اسی لیے شادیوں میں رحمتیں اور برکتیں ہوتی تھیں لیکن آج کسی لڑکے یا لڑکی کی دھوم دھام سے شادی ہو تو رشتے داروں میں حسد و رقابت شروع ہو جاتی ہے۔محلے والے سڑ جاتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ لڑکی کی ساس شادی سے پہلے سا زشیں شروع کر دیتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے لوگوں میں احساس، شرم، لحاظ ، مروت، ادب آداب تھے۔ آج کا پاکستان دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ہمارا پیارا مہذب پاکستان ہے۔ داتا کی نگری میںکبھی کو ئی بھوکا نہیں سویا بلکہ پورے پاکستان میں چاہے کسی نے روکھی سوکھی کھائی ہو یا ایک وقت کھانا کھایا ہو لیکن چوبیس گھنٹوں میں بھوکا نہیں رہا۔ سب کے دل میں احساس اور خوف خدا ہوتا تھا۔ چیزیں ہی خا لص نہیں تھیں بلکہ رشتے بھی خا لص تھے۔ چھوٹے بڑے کا احترام تھا۔نیکی بدی کا تمیز تھا۔ خیر اور شر کا ڈر تھا۔ گھروں میں بڑوں یعنی بزرگوں کو عزتیں تھیں۔ ساٹھ ستر اسی نوے سال کے سب لوگ بزرک کہلاتے تھے اور کسی بہو بیٹے کی مجال نہیں تھی کہ وہ اپنے بزرگ ساس سُسر کے سامنے بولیں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اُس وقت کے ساس سُسر اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کرتے تھے اور بہوئوں کو بیٹی بنا کر رکھتے تھے۔ اگر میاں بیوی کی لڑائی ہوتی تو لڑکے کے ماں باپ بہو کے بجائے بیٹے کو ڈا نٹتے یا سمجھاتے تھے کہ تم کسی کی بیٹی سے زیادتی کرو گے، اُسکا حق مارو گے یا بد زبانی کرو گے تو یاد رکھو کہ تمھارے گھر میں تمھاری ماں ہے۔ اسکی بدنامی ہو گی اور اُسکی باز پرس ہو گی۔ تم کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ ظلم کر و گے یا ظلم ہوتا دیکھو گے تو کل کو تمھاری بہنوں کے ساتھ اس سے زیادہ ظلم ہو گا۔یاد رکھو کل تم بھی بیٹی کے باپ بنو گے کیا تب اپنی بیٹی کے ساتھ ظلم زیادتی برداشت کر سکو گے؟؟؟ اگر پہلے زمانے میں ساسیں ڈانٹتی تھیں تو وہ مائوں سے بڑھکر بہو کا خیال بھی رکھتی تھیں۔ بہوئوں سے محبت بھی کرتی تھیں۔ اُنکی عزت خو د بھی کرتی تھیں اور سارے خاندان سے اپنی بہو کی عزت بھی کراتی تھیں۔پاکستان میںخاندانی نظام ہی نہیں، محلے داری اور سار ا معاشرتی نظام ہی بہت اچھا چل رہا تھا۔ گھروں میں امن سکون چین تھا۔ گھروں میں امن سکون چین صرف گھر کی بڑی عورت سے ہوتا ہے۔ رحمتیں برکتیں بھی تب ہوتی ہیں جب گھروں میں کلِ کلِ نہ ہو۔ بد قسمتی سے آج وہ پاکستان نہیں رہا۔ نہ بڑے بڑے رہے نہ چھوٹے چھوٹے۔پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ بھی عورتوں کا لالچ حرص حسد اور خود غرضی کی وجہ سے ہے۔ مرد بیچارہ تو ایک شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ پہن کر بھی خوش رہتا ہے لیکن عورتیں زیور کپڑے جوتے پرس میک اپ پھل فروٹ گوشت اور ہوٹلنگ سے باز نہیں آتیں۔مردوں کو کرپشن کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ہر  وقت مرد سے تقاضے فرمائشیںمطالبے اور پیسوں کی ڈیمانڈ کرکے کرپشن کے راستوں پر چلاتی ہیں۔ ایسی عورتوں کی وجہ سے بعض گھروں میں یہ جملے سُننے کو ملتے ہیں کہ ناشکری بیویاں یہی وا ویلا مچا تی ہیں کہ تم نے میرے لیے آج تک کیا کیا ہے۔ جو مرد ہر ماہ اپنی بیوی کو لاکھوں روپیہ گھر کے خرچے، شا پنگ، زیور کپڑے اور جیب خرچ کا دیتا ہو۔ پھر بھی اُسے ناشکری عورت بُرا بھلا کہتی ہی نظر آئے گی۔ یہی صورتحال ہمارے زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارا معا شی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔ اخلاقیات برباد ہو گئی۔ انسانیت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ سیاست تباہ ہو گئی ہے۔ ہم ہر طرح سے ملاوٹ زدہ قوم بن چکے ہیں۔ کبھی ہم چین کو قرضہ دیتے تھے۔ آج ہم چین کے محتاج ہیں۔ کبھی ہم امریکہ کے دوست تھے، آج ہم اُنکے غلام ہیں۔ ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر بھی دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ کل تک ہم پاکستان میں سر اٹھا کر آزادی سے جیتے تھے۔ آج اُس پاکستان میں سسک رہے ہیں۔پاکستان ان چند سالوں میں بدلا ہے اور ایسا بدلا ہے کہ ہماری چولیں ہل گئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جیسی قوم ہو ، ویسے ہی حکمران اُن پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے کرپٹ حکمران ہم پر مسلط ہیں۔ ویسے ہی قوم کرپٹ ہو گئی ہے۔حکمران تو حرص و ہوس کے مارے ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ تو کبھی نہیں بدلیں گے۔ اگر پاکستا ن بدلنا ہے تو قوم کو خود اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن