حوثیوں اور ایران کے حملوں میں اضافہ، یمن کے لیے امریکی ایلچی کی خلیج روانگی

محکمۂ خارجہ نے پیر کو کہا کہ یمن کے لیے امریکی خصوصی ایلچی خلیج کا سفر کر رہے ہیں کیونکہ بین الاقوامی جہاز رانی پر ایرانی اور حوثی حملوں کی وجہ سے یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے تقریباً دو سال کی مشترکہ پیش رفت کو خطرہ لاحق ہے۔ے شدہ دورے کی تحریر کے مطابق ٹم لینڈرکنگ اسرائیل-حماس تنازع پر قابو پانے کی ضرورت پر بھی زور دیں گے۔7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور اس کے نتیجے میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے اسرائیل پر میزائل اور دیگر پروجیکٹائل داغے ہیں۔اس تشدد سے یمن میں برسوں سے جاری جنگ میں ہونے والی پیش رفت کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کو حوثی ملیشیا کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔محکمۂ خارجہ نے کہا، لینڈرکنگ بحیرۂ احمر اور خلیجِ عدن میں سمندری سلامتی کے تحفظ کے لیے "سخت" امریکی سفارت کاری اور علاقائی رابطہ کاری کو جاری رکھیں گے کیونکہ حوثی اور ایرانی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔امریکی جنگی بحری جہاز یمن میں حوثی عسکریت پسندوں سمیت شرقِ اوسط میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کی طرف سے داغے جانے والے میزائلوں اور پروجیکٹائل کے قریب آ گئے ہیں۔پیر کے روز ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ یو ایس ایس کارنی نے بحیرۂ احمر میں ان کی سمت آنے والے حوثی ڈرون کو تباہ کر دیا۔ کارنی نے یہ بھی دیکھا کہ کم از کم ایک بیلسٹک میزائل ایک شہری تجارتی جہاز پر فائر کیا گیا اور یونٹی ایکسپلورر کی مدد کرتے ہوئے کارنی نے ایک اور حوثی ڈرون کو مار گرایا۔ یہ ایک دن بعد آیا جب امریکی فوج نے آئزن ہاور طیارہ بردار بحری جہاز کے قریب ایک ایرانی یو اے وی کو روکا تھا جس کے بارے میں ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ وہ فلائٹ آپریشن کر رہا تھا اور اس نے فوری فضائی حدود میں کسی بھی طیارے کی جسمانی موجودگی کو بھی غیر محفوظ بنا دیا تھا۔امریکی فوج نے کہا کہ اس کے پاس یہ یقین کرنے کی ہر وجہ ہے کہ بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں پر پیر کے روز چار حملے اگرچہ یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے کیے گیے لیکن انہیں "مکمل طور پر فعال" ایران نے کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ "تمام مناسب ردِعمل" پر غور کرے گا۔محکمۂ خارجہ نے کہا، "خصوصی ایلچی جنگ کے خاتمے اور یمن کو امن و استحکام کے لیے ایک مضبوط راستے پر لانے کے لیے امریکہ کی یمن-یمن سیاسی گفتگو کی ترجیح پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل-حماس تنازع پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیں گے۔"بیان میں مزید کہا گیا کہ "شرقِ اوسط میں وسیع تر تنازعہ نہ تو امریکہ کے اور نہ ہی ہمارے علاقائی شراکت داروں کے مفادات کو پورا کرتا ہے جو یمن میں پائیدار امن کے حامی ہیں۔"دریں اثناء واشنگٹن عالمی جہاز رانی کے لیے راستے کو محفوظ بنانے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان اور دیگر کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں تاکہ یمن جنگ کے جلد از جلد حل کی حمایت کی جا سکے۔اپنے سفر کے دوران لینڈرکنگ خلیج میں حکام سے ملاقات کریں گے تاکہ پائیدار جنگ بندی کے لیے ضروری اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے اور اقوامِ متحدہ کی زیرِ قیادت یمنی-یمنی سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔جنگ کے نتیجے میں یمن کرۂ ارض پر ایک بدترین انسانی بحران کا شکار ہو گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن