امریکہ اعلیٰ حکام نے اسرائیل کو آگاہ کر دیا ہے کہ جنوبی غزہ میں جنگی کارروائیاں بڑھانے سے امریکی حکام کو بے چینی ہو رہی ہے کہ اس صورت میں لاکھوں فلسطینیوں کو بمباری سے بچنے کے لیے غزہ سے بچ نکلنے کی کوشش کرنا ہوگا، اس دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔جنوبی غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ دور روز قبل اس وقت ہوا جب اسرائیل نے ایک ہی رات میں جنوبی غزہ میں 200 مقامات پر بمباری کی۔ بتایا گیا ہے کہ ان اسرائیلی حملوں کی زد میں حماس کے اسلحہ ڈپو بھی آئے۔واضح رہے امریکہ اور یورپ حماس کے بارے میں اسرائیل کےساتھ ایک ہی صفحے پر ہیں اسی لیے امریکہ اور یورپی ممالک نے حما س کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔اسرائیل کے تازہ حملے جنوبی غزہ پر اسرائیل کے اس انتباہ کے بعد سامنے آئے جن میں اسرائیل نے جنوبی غزہ سے بھی لوگوں کو نکلنے کی ہدایات دیں۔ کہ اس علاقے کو بھی خالی کر دیں۔ اس سے قبل شمالی غزہ سے لوگوں کو نکل کر جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کر جانے کو کہا گیا تھا۔پچھلے ہفتے کے اختتام سے امریکی حکام بشمول وزیر دفاع اور نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جنگ کے باعث عام شہریوں کی جانوں کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔'واضح رہے غزہ میں پیر کے روز تک فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد 15500 سے تجاوز کر چکی تھی، جبکہ ان میں ستر فیصد تعداد فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہےامریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ہفتے کے روز کیلیفورنیا میں خطاب کے دوران کہا تھا' شہری علاقوں میں اس وقت جنگ نہیں جیتی جا سکتی جب تک شریوں کو تحفظ نہ ملے۔ شہریوں کو احساس تحفظ دے کر ہی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔' انہون نے عراق میں امریکی جنگ کی مثال بھی دی تھی۔امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے اپنی ایک گفتگو میں یہی کہا ہے' جس طرح اسرائیل غزہ میں اپنے جنگی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے ہم چاہتےہیں کہ وہ معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید کوششیں کرے ۔'امریکی نائب صدر کا بیان اپنی جگہ مگر اسرائیل نے اب تک عام شہریوں کے بچاؤ لیے کیا کیا ہے اسے سمجھنا مشکل ہے۔ سوائے بمباری کے اسرائیل غزہ میں کچھ نہیں کر سکا ۔ اب جمعہ کے روز سے بھی جس طرح عجلت مں اسرائیل نے جنگ بندی توڑنے میں جلدی دکھائی اور اس کے بعد اب تک جنوبی غزہ میں 1200 مقامات کو ہدف بنایا جا چکا ہے۔بلکہ اب تو امریکی بحریہ کے جہاز بھی سمندروں میں ڈرون حملے روکنے کی حد تک خبریں دینا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے نہیں لگتا کہ کسی مستقل جنگ بندی کے آثار ہیں۔ بلکہ جنگی اثرات تو سمندروں میں چلنے والے کمرشل جہازوں تک پہنچ رہے ہیں۔
جیسا کہ نجی طور پر امریکی اور اسرائیل حکام یہی کہتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جنگ کے اہم ترین ہدف حماس کی تباہی کو اسی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔اسرائیلی فوج کے سربراہ کا اس بارے میں کہنا ہے ہم جنوبی غزہ میں بھی وہی کچھ کریں گے جو ہم شمالی غزہ میں کر چکے ہیں۔'بعض دوسرے امریکی و اسرائیلی حکام کہتے ہں امریکہ جنوبی غزہ میں اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے خلاف نہیں ہے۔لیکن یہ ضرور کہتا ہے کہ گزہ کے اندر کچھ محوظ جگہیں بنائی جائیں ، ان حکام کا کہنا ہے کہ ان کی شناخت سامنے نہ لائی جائے کہ معاملہ حساس ہے۔