سندھ ہائیکورٹ نے سندھ بھر میں گریڈ ون سے 15 تک سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے کیس میں سرکاری نوکریوں پر پابندیاں برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ظفر احمد راجپوت نے صوبے بھر میں گریڈ ون تا15سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے کیس کی سماعت کی جس دوران عدالت نے سابقہ حکومت کی جانب سے سرکاری نوکریاں دینے کے طریقے پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جا رہی تھی جاتے جاتے ڈپٹی کمشنرز کو اوپن اور بلینک تقرریاں لیٹرز پر سرکاری نوکریاں دینے کا کہہ گئی کہ بندہ آرہا ہے ملازمت کا لیٹر دے دو، کئی ڈپٹی کمشنرز تو چھٹی پر چلے گئے۔ جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ لوگوں کا کہا گیا بلینک تقرر نامے ڈپٹی کمشنرز کے دفتر سے وصول کرلو، اس دوران سرکاری وکیل نے عدالت کے ریمارکس کی تائید کی۔جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ ہم نے سرکاری نوکریوں پر میرٹ اور شفافیت کا خیال رکھنا ہے، پہلے ٹرانسپورٹ کا ادارہ ایس آر ٹی سی ہوا کرتا تھا اسے بھی تباہ و برباد کردیا گیا، ادارے یہی رہیں گے ہم نہیں رہیں گے۔ عدالت نے کہا کہ اداروں کو سسٹم کے تحت چلائیں گے تو سب کا فائدہ ہوگا، اگر سسٹم کے بغیر چلائیں گے تو صرف ان کا فائدہ ہوگا جو سرکاری نوکریاں کرتے ہیں۔ عدالت نے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کیئر اور داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کو کنٹریکٹ ملازمین دینے کیلئے دوبارہ واضح اشتہارات دینے کا حکم دیا۔ عدالت نے حکم امتناع کے باوجود سیسی میں سرکاری ملازمتیں جاری کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب حکم امتناع جاری ہوچکا تھا تو کیسے سرکاری نوکریاں جاری کردیں۔ وکیل ایم کیو ایم فروغ نسیم نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ میں ایک ایس او نے 40 نوکریاں جاری کردیں، چیف سیکرٹری سندھ اور دیگر کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے کیسے نوکریاں اور تنخواہ جاری کی جارہی ہیں؟ عدالت نے سرکاری نوکریوں پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت 15 جنوری 2024 تک ملتوی کردی۔