5فروری… یوم یکجہتی کشمیراور اس کے تقاضے … (۱)

turabi786@gmail.com
5فر وری کا دن اس اعتبار سے ہماری ملی تاریخ میں ایک اہم دن کی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ دن موجودہ تحریک جہادِ کشمیر کے اوائل ہی سے پورے پاکستان میں تحریک آزادی کشمیر کیساتھ اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر منایاجاتا ہے اور اس حوالے سے تجدید عہد کیا جاتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے سلسلے میں ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم ان کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ یہ دن صرف پاکستان میں ہی نہیں منایا جاتا ہے بلکہ پاکستان کے علاوہ دوسرے تمام اسلامی ملکوں کی اسلامی تحریکوں کی طرف سے بھی یہ دن تحریک آزادی کشمیر کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اہتمام کے ساتھ منایاجاتا ہے۔ چنانچہ اس دن پاکستان کے علاوہ دنیائے اسلام کے دوسر ے حصوں میں بھی وہاں کی اسلامی تحریکوں کی طرف سے تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے خصوصی پروگراموں مثلاً سیمیناروں، کانفرنسوں اور ریلیوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
یوم یکجہتی کشمیرکا پس منظر
5فر وری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پرمنانے کا آغاز 1990ء کے اوائل میں موجودہ تحریک آزادی کشمیر کے آغاز میں ہوا۔ اس دن کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پرمنانے کے حوالے سے سب سے پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم قاضی حسین احمد نے جنوری 1990ء کے اوائل میں اپیل کی تھی۔ یہ بات اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں کہ محترم قاضی صاحب کی حیثیت موجودہ تحریک آزادی کشمیر کے آغاز کے پہلے دن سے اس تحریک کے ایک بہت بڑے محسن اور پشتیبان کی رہی ہے اور انہوں نے اس تحریک کی تائید و حمایت کے حوالے سے ذاتی طور پر بھی اور جماعتی حیثیت سے بھی جو گرانقدر کوششیں کی ہیں اس کی پورے ملک میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس اپیل کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ اس وقت چونکہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی اور محترم میاں محمد نوازشریف وزیراعلیٰ تھے۔ لہٰذا انہوں نے محترم قاضی صاحب کی اپیل سے اتفاق کرتے ہوئے 5فر وری 1990ء کو پنجاب بھر میں سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کردیا۔ مرکز میں اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کی حکومت تھی لہٰذا انہیں بھی اس دن کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ محترم قاضی صاحب نے مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں سے بھی یہ دن یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کی اپیل کی۔ چنانچہ اس کے بعد سے یہ دن نہ صرف یہ کہ سرکاری طورپر اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے اکثر ملکوں میں وہاں کی اسلامی تحریکوں کی طرف سے بھی اسے یوم یکجہتی کشمیر کے طور پرمنایا جاتاہے۔ چنانچہ اس دن نہ صرف پورے ملک بلکہ پورے عالم اسلام میں تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے جلسوں، جلوسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور تجدید عہد کیا جاتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔
یوں تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا یہ اہتمام 5فر وری کو ہر سال کیا جاتا ہے، اور بلاشبہ یہ بات اپنی جگہ بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس موقع پر پوری قوم بشمول حکومت تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ 5فر وری کو تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور اعلان کرنے کے بعد ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے جو تقاضے ہیں کیا ہم واقعی سنجیدگی سے انہیں سمجھنے اور ان سے عہدہ براء ہونے کا اہتمام کرتے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کیساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے قول وفعل کے تضاد کے نقصانات:۔
تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کرنے کے بعد اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرنے سے تحریک آزادی کشمیر کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، اس کا اندازہ کرنے کیلئے یہاں ہم سابق صدر پرویز مشرف کے دور کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی 5فروری کو ہر سال یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر پورے اہتمام سے منایا جاتا رہا۔ چنانچہ اس موقع پر اہتمام سے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جاتا تھا اور اس عہد کی تجدید کی جاتی تھی کہ ہم تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے حوالے سے اپنی ممکنہ کوششوں میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور پھر ابھی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے تجدید عہد کے یہ الفاظ ہوا میں تحلیل بھی نہ ہو پاتے کہ خود صدر پرویز مشرف کی طرف سے اس عظیم تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا آغاز کردیا جاتا۔ جس کے نتیجے میں تحریک آزادی کشمیر کے خلاف خود حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے تناظر میں تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کااظہار اور اعلان ایک مذاق بن کے رہ جاتا۔ چنانچہ ان کے نو سالہ دور اقتدار کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس عرصے کے دوران میں ہر سال 5فر وری کو تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے عہد کی تجدید کے ساتھ ساتھ اپنے اقدامات کے ذریعے اس تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کے ان اقدامات میں سے جن سے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مثال کے طور پر چند اقدامات کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اکتوبر 2003ء میں ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر یکطرفہ جنگ بندی کے ذریعے بھارت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ کنٹرول لائن پر برقی تاروں کی باڑ لگا کر کشمیری مجاہدین کی آمد و رفت کا سلسلہ بند کر دے تاکہ اسے مقبوضہ کشمیر میں تحریک جہاد کو کچلنے کیلئے سرکاری دہشت گردی کے ہتھکنڈوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل سکے۔ اسی طرح انہوں نے جنوری 2004ء میں بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ باہمی متنازعہ معاملات کو حل کرنے کے معاہدے کے بعد یکایک مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف سے جوٹھوس آئینی اخلاقی بنیادوں پر قائم تھا، دستبرداری کا اعلان کردیا۔ جب کہ بھارت اپنے غلط موقف پر جس کی کوئی آئینی اور اخلاقی بنیاد ہی نہیں تھی، پوری ڈھٹائی سے قائم رہا جس سے مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، چنانچہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف سے دستبرداری کے اس غیر دانشمندانہ اقدام کا ایک طرف تو یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرے سے کوئی موقف ہی نہیں رہا۔ جب کہ اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے اصولی موقف سے دستبرداری کے اعلان کے بعد پاکستان مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق ہی نہیں رہا۔ اس لئے کہ وہ صرف اپنے اصولی موقف کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کا ایک بنیادی فریق تھا۔ لہٰذا اپنے اصولی موقف سے دستبرداری کے بعد پاکستان کسی فورم پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھانے کے قابل نہ رہا۔
صدر مشرف کا ایک دوسرا اقدام جس سے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، ان کا پاکستان کے اس اصولی موقف سے انحراف کا فیصلہ تھا کہ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو متنازعہ مان کر اس کے حل پر آمادگی کا اظہار نہیں کرتا ہے، اس سے تعلقات خصوصاً تجارتی تعلقات کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی، خصوصاً تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے پاکستان کا یہ اصولی موقف قیام پاکستان کے پہلے دن سے تھا لیکن صدر مشرف نے ظلم یہ کیا کہ پاکستان کے اس اصولی موقف سے انحراف کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قراردینے کے ہٹ دھرمی پر مبنی موقف کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا فیصلہ اور اعلان کردیا جس کے بعد بھارت سے آنے والے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا پاکستان میں سرکاری سطح پر استقبال کیا جانے لگا۔ خصوصاً وہاں سے آنے والے ایکٹروں، ایکٹرسوں اوربھانڈوں کا تو اس طرح استقبال کیا جانے لگا کہ گویا وہ ’’وی۔وی۔آئی۔پی‘‘ قسم کے لوگ ہیں۔ اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ بھارت سے آنے والے یہ تمام بھانڈ اور میراثی واہگہ پہنچنے پر پاکستان اوربھارت کے درمیان واقع نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو ختم کرکے دوبارہ اکھنڈ بھارت بنانے کی باتیں کرتے۔ اس سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچنے لگا کہ جو پاکستان ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کا مرکز و محور اور نصب العین ہے، وہ خود بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے اس قدر بے چین ہے اور اس مقصد کیلئے اس کے سامنے بچھا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ان کے جذبہ جہاد و آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔(جاری ہے)
لیکن صدر پرویز مشرف کے جس اقدام سے تحریک آزادی کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا وہ یہ تھا کہ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کی قیادت میں اختلافات کو پروان چڑھایا اور اس کیلئے اپنی سرکاری حیثیت اور وسائل کا بڑی بے دردی سے استقبال کیا جس سے تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
اسی طرح اس دوران میں صدر پرویز مشرف نے ایک اورستم یہ ڈھایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی روڈ میپ پر عملدرآمد کیلئے وقتاً فوقتاً نئے نئے فارمولے پیش کرتے رہے، کبھی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر کا فارمولا اورکبھی کشمیر کو لسانی خطوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا۔ اگرچہ ان کے پیش کردہ یہ سارے فارمولے تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں کے یکسر منافی تھے۔ لیکن اس کے باوجود انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ہرسال5فر وری کویوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور اعلان بھی کرتے رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ طرز عمل تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔
یہ ایک امر واقعہ ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے اس طرز عمل کو کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام نے بھی مسترد کردیا جس کا نتیجہ 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں ان کی حامی حکمران جماعت ق لیگ کی عبرتناک شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ جہاں تک نئی حکومت کا تعلق ہے جو 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے، وہ اس سال 5فروری کو پہلی بار تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے، اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان تقاضوں کو کہاں تک پورا کرتی ہے۔ لہٰذا ہم اختصار کے ساتھ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان تقاضوں کا ذکر کرتے ہیں تاکہ قوم بشمول حکومت ان تقاضوں کا صحیح طور پر ادراک بھی کرسکے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بھی بنائے۔
تحریک آزادی کشمیر سے یکجہتی کے تقاضے
تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ان تقاضوں کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حق خو دارادیت کی جو تحریک جاری ہے، وہ ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکمیل اور بقاء کی تحریک بھی ہے اور ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائی گزشتہ انیس سال کے عرصے میں کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی بقا کی اس تحریک کے دوران میں ایک لاکھ سے زیادہ شہداء کے مقدس لہو کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ جن میں مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں، اس کے علاوہ اس عرصے کے دوران میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مسلمان مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے زخمی اور اپاہج ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آج مقبوضہ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی فرد شہید یا زخمی نہ ہوا ہو، یا جس کی کسی ماں، بہن یا بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہو۔ اسی طرح آج مقبوضہ کشمیر میں بستیوں کی بستیاں ویرانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا کوئی شہر یا گائوں ایسا نہیں ہوگا جہاں شہدائے کرام کے مزار نہ ہوں۔ یوں وہ کشمیر جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور رعنائی کی وجہ سے جنت ارضی کہلاتا تھا، بھارت کی سرکاری دہشت گردی کی وجہ سے موت کی وادی میں تبدیل ہوچکا ہے اور کشمیری عوام نے یہ ساری قربانیاں اپنے حق خودارادیت اور پاکستان کی تکمیل اور بقاء کیلئے دی ہیں۔ مائوں نے اپنے جگر گوشے، بہنوں نے اپنے بھائی اور بیویوں نے اپنے سہاگ اسی عظیم مقصد کیلئے پیش کئے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان کی ان عظیم اور لازوال قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے کسی ایسے حل کی بات کرتا ہے جو ان کے حق خودارادیت اور آزادی کے مطالبے سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، تو وہ ان کی ان عظیم اور لازوال قربانیوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اہل کشمیر کی اتنی عظیم قربانیوں کے بعد مسئلہ کشمیر کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل پر بھارت کی آمادگی کے بغیر اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور تجارت کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل کشمیری مائوں، بہنوں اوربیٹیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتا ہے اور وہ شخص تو کسی صورت بھی قابل معافی نہیں ہے جو 5فروری کو تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور اعلان کرنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں بھی حصہ لیتا ہے۔
تحریک آزادی کشمیر کی اہمیت اور اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ان تقاضوں کا ذکر کرنے کے بعد ہم یہاں اختصار کے ساتھ بعض ایسے اقدامات کا ذکر کرتے ہیں، جن پر عملدرآمد کے بغیر تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے تقاضے کسی صورت بھی پورے نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ اقدامات حسب ذیل ہیں۔
اولاً:۔ ملت پاکستان بشمول حکومت پاکستان اس حقیقت کا شعوری طور پر ادراک کرے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمت کی تحریک کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکمیل اور بقاء کی تحریک بھی ہے اوراس تحریک سے بیگانگی قومی خودکشی کے مترادف ہوگی۔
ثانیاً:۔ حکومت پاکستان اس بات کا واضح اور دو ٹوک طور پر اعلان کرے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر جو تقسیم برصغیر کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے مطالبے پر مبنی ہے، قائم ہے اور قائم رہے گا۔
ثالثاً:۔ حکومت پاکستان کو اس بات کا بھی واضح اور دو ٹوک انداز میں اعتراف اور اعلان کرنا چاہئے کہ پاکستان چونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے اور اس پر عملدرآمد کیلئے جاری تحریک مزاحمت کی تائید و حمایت کرنا پاکستان کا آئینی و قانونی اور اخلاقی فرض اور ذمہ داری ہے۔ جس سے پاکستان لاتعلق اور بیگانہ نہیں رہ سکتا ہے۔ لہٰذا سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کی رو سے پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت کی بھرپور تائید و حمایت کرے جو اس کا حق بھی اور فرض بھی۔
رابعاً:۔ حکومت پاکستان کو اس بات کا بھی واضح اور دو ٹوک انداز میں اعلان کرنا چاہئے کہ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرکے اسے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو جاتا ہے، اس وقت تک نہ تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی طرح کی تجارت کی جاسکتی ہے۔
خامساً:۔ صدرپرویز مشرف نے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے تحریک آزادی کشمیر کی قیادت میں اختلاف کو ہوا دینے کا جو گھنائونا عمل شروع کیا تھا موجودہ حکومت کو فوری طور پر اسے بند کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
سادساً:۔ اہل پاکستان کو حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی، اس عہد کی تجدید کرنی چاہئے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا ہے، اس وقت تک بھارتی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا۔
سابعاً:۔ اہل پاکستان کو حکومتی سطح پر بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں جو لوگ متاثر ہوئے ہیں ان کو ریلیف بہم پہنچانا ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر صورت اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن