وفاقی وزیر خوراک و زراعت نذر گوندل نے کہا ہے‘ مہنگائی کم نہیں کر سکتے۔
نذر گوندل کو اپنے اس بیان خوش مقال پر نظر وٹو گلے میں باندھ لینا چاہیے کہ ایسی بات تو وفاقی نہیں‘ کوئی آفاقی وزیر ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر مہنگائی کم نہیں کر سکتے‘ بڑھا تو سکتے ہیں اس لئے غریب عوام پر اور بوجھ ڈالیے تاکہ خودکشیوں کی تعداد اور بڑھے اور ثواب وزیر موصوف کو پہنچے۔ انہوں نے بیان جمع متکلم کے صیغے میں دیا ہے‘ یعنی انہوں نے اس درفنطنی میں پوری حکومت کو لپیٹا ہے۔ اس لئے اب اس ہرزہ سرا وزیر کے ساتھ وزیراعظم‘ صدر اور دیگر وزراء بھی گویا وہی کہہ رہے ہیں جو انہوں نے داغ دیا ہے۔ یعنی حکومت کی طرف سے صاف انکار ہو گیا‘ تو عوام کو بھی صاف انکار کردینا چاہیے‘ حکومت کو تسلیم کرنے سے‘ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا پرکٹا بیان کسی نے نہیں دیا۔ جو نذر نے اپنی ’’وکھی‘‘ سے نکال کر قوم کی نذر کیا ہے۔ یہ ملک خوراک اور قدرتی وسائل کا مخزن ہے‘ بات صرف اتنی ہے کہ خزانوں پر حکمرانوں‘ سیاست دانوں کا قبضہ ہے‘ چینی کی ملوں سے ساری چینی ذخیرہ اندوزوں کو فروخت کر دی گئی اور بدنام پرچون والے ہو رہے ہیں۔ نذر گوندل صاحب نے ایک بار پہلے بھی یہ بیان چھوڑا تھا کہ چینی نہیں ملتی تو نہ استعمال کریں۔ یہ قربانی کے وزیر ہیں‘ یارقیب ہیں۔ برایں عقل و دانش بباید گریست۔ (اس عقل و دانش پر رونا چاہیے)
٭…٭…٭…٭
خبر گرم ہے کہ صدر آصف علی زرداری دولہا بن گئے ہیں۔ مگر صدارتی ترجمان نے تردید کی ہے کہ صدر نے دوسری شادی نہیں کی۔ افواہوں سے خاندان اور پارٹی کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔
صدر گرامی قدرکو شادی کی ضرورت کیا ہے؟ وہ صدر ہیں‘ ان کیلئے صدارت ہی کافی ہے‘ انکی شادی تو صدارت سے ہو چکی ہے اگر افواہ ہی پھیلانی تھی تو 2013ء کے بعد پھیلاتے۔ ویسے صدر صاحب ملول نہ ہوں‘ نہ ہی انکے خاندان والے اور نہ پارٹی ممبرز‘ ویسے قطع نظر اس افواہ کے شادی کوئی شجر ممنوعہ نہیں کہ کوئی اسکی ٹہنیوں سے کھیل نہ سکے‘ اس کا پھل کھا نہ سکے‘ صدر صاحب مردحر ہیں اور مردِحر‘ مردِ درویش ہوتا ہے اور درویش کو کیا پڑی ہے کہ شادی کرے تو چھپا کے رکھے۔ ویسے بھی شہید زندہ ہوتا ہے‘ اس لئے شہید بینظیر کا شوہر رنڈوا نہیں ہو سکتا اور دونوں کا روحانی رابطہ برقرار رہتا ہے۔
ممکن ہے افواہ پھیلانے والے نے شادی کی ہو اور صدر کے سر منڈھ دی ہو۔ بہرحال جب تردید ہو گئی تو افواہ ساز مرتد ہو گیا بلکہ مردود ٹھہرا۔ آصف علی زرداری کاروبار حکومت میں اور پاکستان کی خدمت میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں ایسی افواہوں کی پرواہ ہی نہیں۔ انکے بچوں اور پارٹی کے بچونگڑوں کو بھی اس جھوٹی خبر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…٭…٭…٭
گورنر نے کلمہ چوک کیلئے مختص فنڈز نارووال منتقل کر دیئے‘ 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کے فنڈز نارووال کی کشادگی پر خرچ ہونگے۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نارووال سے تو گورنر کا کوئی تعلق نہیں البتہ کسی روحانی تعلق کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر کلمہ چوک کے فنڈز نارووال پر خرچ کرنا ہیں تو جو وہاں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز دیئے گئے ہیں‘ وہ کہاں خرچ ہونگے۔ وہ چاہتے تو یہ کہتے کہ کلمہ چوک پر اتنا خرچہ کرنے کے بجائے لاہور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تعمیر کی جائیں‘ جہاں گیس نہیں‘ وہاں گیس دی جائے‘ آخر انکی نارووال سے گہری وابستگی بھی معلوم کرنا ہو گی کہ اسکی تہہ میں کوئی صدف تو نہیں جس میں موتی ہے۔
اگر گورنر صاحب نارووال کیلئے وہاں کے ارکانِ اسمبلی کو دیئے گئے فنڈز بچانا چاہتے ہیں تو پھر یہ ارکان نوازی کیوں؟ گورنر صاحب پہلے لاہور کے گھائو پر کرلیں‘ پھر نارووال کی طرف التفات فرمائیں۔ ممکن ہے نارووال سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں…؎
گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
لطیف کھوسہ المعروف بوسہ پورے پنجاب کے گورنر ہیں‘ اس لئے وہ جہاں کے فنڈز ہیں‘ وہیں خرچ کرائیں‘ تاکہ ہر ضلع کو اس کا حق اسکے ارکان اسمبلی سے ملے وگرنہ اس طرح تو یہ فنڈز انکی جیب کی نذر ہو جائینگے۔ بہرحال گورنر پنجاب کے شیر ہیں‘ انڈہ یا بچہ کچھ بھی دینے کے مجاز ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پیپلز پارٹی پنجاب نے نواز شریف کو صوبے کی بہتری کیلئے 19 نکاتی ایجنڈا بھجوا دیا۔
یہ ایجنڈا بمقابلہ ایجنڈا ہے یا ڈنڈا بمقابلہ ڈنڈا‘ ابھی تو میاں نواز شریف کے ایجنڈے پر عملدرآمد نہیں ہوا کہ پیپلز پارٹی نے جواب آں ایجنڈا پیش کر دیا۔ یہ سیاست ہے یا سانڈوں کی لڑائی۔ پنجاب حکومت تو اچھی بھلی چل رہی ہے‘ پھر یہ افتاد کیوں؟ سمجھ نہیں آتی کہ جس حزب اقتدار و حزب اختلاف کو ہم ایک سمجھتے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں۔ چلو یہ تو اچھا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے ازراہ کرم مسلم لیگ نون کو تعاون کی دلدل سے نکال کر عوام کیلئے کام کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
لگتا ہے پنجاب ہی پاکستان ہے‘ اس لئے ہر جانب سے اسی پر یلغار ہو رہی ہے۔ گویا پنجاب کو مسٹر قربانو بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہی پورے پاکستان کیلئے قربانیاں بھی دے اور ’’لِتر‘‘ بھی کھائے۔
پنجاب سے اسکے حصے کا پانی بھی لے لیا جاتا ہے اور اسے کالاباغ ڈیم بھی وہ نہیں بنانے دیتے جو اپنے پرکھوں کی خواہشات پوری کر رہے ہیں اور جب پاکستان بن رہا تھا تو وہ گاندھی کی دھوتی میں گھسے ہوئے تھے۔ یہ 19 نکاتی ایجنڈا پنجاب پورا کرنے کا پابند نہیں‘ البتہ نواز شریف کے ایجنڈے کو پورا ہونا چاہیے‘ جاگ اے نون‘ مسلم لیگ نون اب تو جاگ‘ ورنہ بھاگ اے مسلم لیگ نون بھاگ کیا ستم ہے کہ ملک میں گڈگورننس پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کی کلائی پکڑ کر نیچے کرنے کا مقابلہ ہے‘ جسے ایجنڈا کہتے ہیں۔
نذر گوندل کو اپنے اس بیان خوش مقال پر نظر وٹو گلے میں باندھ لینا چاہیے کہ ایسی بات تو وفاقی نہیں‘ کوئی آفاقی وزیر ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر مہنگائی کم نہیں کر سکتے‘ بڑھا تو سکتے ہیں اس لئے غریب عوام پر اور بوجھ ڈالیے تاکہ خودکشیوں کی تعداد اور بڑھے اور ثواب وزیر موصوف کو پہنچے۔ انہوں نے بیان جمع متکلم کے صیغے میں دیا ہے‘ یعنی انہوں نے اس درفنطنی میں پوری حکومت کو لپیٹا ہے۔ اس لئے اب اس ہرزہ سرا وزیر کے ساتھ وزیراعظم‘ صدر اور دیگر وزراء بھی گویا وہی کہہ رہے ہیں جو انہوں نے داغ دیا ہے۔ یعنی حکومت کی طرف سے صاف انکار ہو گیا‘ تو عوام کو بھی صاف انکار کردینا چاہیے‘ حکومت کو تسلیم کرنے سے‘ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا پرکٹا بیان کسی نے نہیں دیا۔ جو نذر نے اپنی ’’وکھی‘‘ سے نکال کر قوم کی نذر کیا ہے۔ یہ ملک خوراک اور قدرتی وسائل کا مخزن ہے‘ بات صرف اتنی ہے کہ خزانوں پر حکمرانوں‘ سیاست دانوں کا قبضہ ہے‘ چینی کی ملوں سے ساری چینی ذخیرہ اندوزوں کو فروخت کر دی گئی اور بدنام پرچون والے ہو رہے ہیں۔ نذر گوندل صاحب نے ایک بار پہلے بھی یہ بیان چھوڑا تھا کہ چینی نہیں ملتی تو نہ استعمال کریں۔ یہ قربانی کے وزیر ہیں‘ یارقیب ہیں۔ برایں عقل و دانش بباید گریست۔ (اس عقل و دانش پر رونا چاہیے)
٭…٭…٭…٭
خبر گرم ہے کہ صدر آصف علی زرداری دولہا بن گئے ہیں۔ مگر صدارتی ترجمان نے تردید کی ہے کہ صدر نے دوسری شادی نہیں کی۔ افواہوں سے خاندان اور پارٹی کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔
صدر گرامی قدرکو شادی کی ضرورت کیا ہے؟ وہ صدر ہیں‘ ان کیلئے صدارت ہی کافی ہے‘ انکی شادی تو صدارت سے ہو چکی ہے اگر افواہ ہی پھیلانی تھی تو 2013ء کے بعد پھیلاتے۔ ویسے صدر صاحب ملول نہ ہوں‘ نہ ہی انکے خاندان والے اور نہ پارٹی ممبرز‘ ویسے قطع نظر اس افواہ کے شادی کوئی شجر ممنوعہ نہیں کہ کوئی اسکی ٹہنیوں سے کھیل نہ سکے‘ اس کا پھل کھا نہ سکے‘ صدر صاحب مردحر ہیں اور مردِحر‘ مردِ درویش ہوتا ہے اور درویش کو کیا پڑی ہے کہ شادی کرے تو چھپا کے رکھے۔ ویسے بھی شہید زندہ ہوتا ہے‘ اس لئے شہید بینظیر کا شوہر رنڈوا نہیں ہو سکتا اور دونوں کا روحانی رابطہ برقرار رہتا ہے۔
ممکن ہے افواہ پھیلانے والے نے شادی کی ہو اور صدر کے سر منڈھ دی ہو۔ بہرحال جب تردید ہو گئی تو افواہ ساز مرتد ہو گیا بلکہ مردود ٹھہرا۔ آصف علی زرداری کاروبار حکومت میں اور پاکستان کی خدمت میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں ایسی افواہوں کی پرواہ ہی نہیں۔ انکے بچوں اور پارٹی کے بچونگڑوں کو بھی اس جھوٹی خبر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…٭…٭…٭
گورنر نے کلمہ چوک کیلئے مختص فنڈز نارووال منتقل کر دیئے‘ 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کے فنڈز نارووال کی کشادگی پر خرچ ہونگے۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نارووال سے تو گورنر کا کوئی تعلق نہیں البتہ کسی روحانی تعلق کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر کلمہ چوک کے فنڈز نارووال پر خرچ کرنا ہیں تو جو وہاں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز دیئے گئے ہیں‘ وہ کہاں خرچ ہونگے۔ وہ چاہتے تو یہ کہتے کہ کلمہ چوک پر اتنا خرچہ کرنے کے بجائے لاہور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تعمیر کی جائیں‘ جہاں گیس نہیں‘ وہاں گیس دی جائے‘ آخر انکی نارووال سے گہری وابستگی بھی معلوم کرنا ہو گی کہ اسکی تہہ میں کوئی صدف تو نہیں جس میں موتی ہے۔
اگر گورنر صاحب نارووال کیلئے وہاں کے ارکانِ اسمبلی کو دیئے گئے فنڈز بچانا چاہتے ہیں تو پھر یہ ارکان نوازی کیوں؟ گورنر صاحب پہلے لاہور کے گھائو پر کرلیں‘ پھر نارووال کی طرف التفات فرمائیں۔ ممکن ہے نارووال سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں…؎
گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
لطیف کھوسہ المعروف بوسہ پورے پنجاب کے گورنر ہیں‘ اس لئے وہ جہاں کے فنڈز ہیں‘ وہیں خرچ کرائیں‘ تاکہ ہر ضلع کو اس کا حق اسکے ارکان اسمبلی سے ملے وگرنہ اس طرح تو یہ فنڈز انکی جیب کی نذر ہو جائینگے۔ بہرحال گورنر پنجاب کے شیر ہیں‘ انڈہ یا بچہ کچھ بھی دینے کے مجاز ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پیپلز پارٹی پنجاب نے نواز شریف کو صوبے کی بہتری کیلئے 19 نکاتی ایجنڈا بھجوا دیا۔
یہ ایجنڈا بمقابلہ ایجنڈا ہے یا ڈنڈا بمقابلہ ڈنڈا‘ ابھی تو میاں نواز شریف کے ایجنڈے پر عملدرآمد نہیں ہوا کہ پیپلز پارٹی نے جواب آں ایجنڈا پیش کر دیا۔ یہ سیاست ہے یا سانڈوں کی لڑائی۔ پنجاب حکومت تو اچھی بھلی چل رہی ہے‘ پھر یہ افتاد کیوں؟ سمجھ نہیں آتی کہ جس حزب اقتدار و حزب اختلاف کو ہم ایک سمجھتے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں۔ چلو یہ تو اچھا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے ازراہ کرم مسلم لیگ نون کو تعاون کی دلدل سے نکال کر عوام کیلئے کام کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
لگتا ہے پنجاب ہی پاکستان ہے‘ اس لئے ہر جانب سے اسی پر یلغار ہو رہی ہے۔ گویا پنجاب کو مسٹر قربانو بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہی پورے پاکستان کیلئے قربانیاں بھی دے اور ’’لِتر‘‘ بھی کھائے۔
پنجاب سے اسکے حصے کا پانی بھی لے لیا جاتا ہے اور اسے کالاباغ ڈیم بھی وہ نہیں بنانے دیتے جو اپنے پرکھوں کی خواہشات پوری کر رہے ہیں اور جب پاکستان بن رہا تھا تو وہ گاندھی کی دھوتی میں گھسے ہوئے تھے۔ یہ 19 نکاتی ایجنڈا پنجاب پورا کرنے کا پابند نہیں‘ البتہ نواز شریف کے ایجنڈے کو پورا ہونا چاہیے‘ جاگ اے نون‘ مسلم لیگ نون اب تو جاگ‘ ورنہ بھاگ اے مسلم لیگ نون بھاگ کیا ستم ہے کہ ملک میں گڈگورننس پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کی کلائی پکڑ کر نیچے کرنے کا مقابلہ ہے‘ جسے ایجنڈا کہتے ہیں۔