سردار لطیف کھوسہ، میاں شہبازشریف حقوقِ پنجاب کیلئے مفاہمت کا آغاز

مجھے جاتی ہوئی اُن سردیوں کا وہ موسم یاد ہے جب 9مارچ کے سانحے کے بعد وکیلوں کے احتجاج کا پہلا دن تھا اور آمر کے حکم پر اس تحریک کو کچلنے کے احکامات صادر ہوئے تو اس تحریک کی سب سے پہلی لاٹھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے جانثار وفادار ساتھی سردار لطیف کھوسہ کے سر پر پڑی۔ لہولہو پیشانی اور چہرے پر خون پنجاب کے اس جیالے کےلئے کسی تمغے سے کم نہیں تھا۔ میں نے اس موقع پر سردار لطیف کھوسہ سے کہا کہ سردار صاحب یاد رکھئے گا آپ کی پیشانی پر لہو پیپلز پارٹی کے جیانوں کےلئے کسی میڈل سے کم نہیں ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ تحریک کو یہ پہلا لہو شہید محترمہ کے جانثار نے دیا ہے پھر اس خون سے شمعیں روشن ہوتی چلی گئیں کراچی میں قتال ہوا ،اسلام آباداور راولپنڈی میں جیالوں کی قربان گاہیں سج گئیں اور خون کی ندیاں بہنے لگی جس سے جمہوریت کے پودے کی آبیاری ممکن ہوئی۔ مرحوم گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد جب سردار لطیف کھوسہ کو صدر مملکت اور وزیراعظم نے گورنر نامزد کیا تو اسے وفاقی حکومت کی مفاہمتی پالیسی کا تسلسل گردانا گیا اور اس فیصلے کو عوامی پذیرائی ملی۔ پنجاب کے عوام ان دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی آپس میں جنگ و جدل سے تنگ آئے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد داتا صاحب،حضرت علامہ اقبال اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزارات پر حاضری کے بعد گورنر سردار لطیف کھوسہ سیدھے میاں محمد شریف مرحوم کی قبر پر پہنچے ، حاضری دی، دعا مانگی اور میاں نوازشریف سے بغلگیر ہوئے۔ میاں شہبازشریف سے دل سے کدورتیں نکال کر آگے چلنے کی استدعا کی جس کی میاں برادران نے بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے حامی بھری۔ دراصل میاں برادران اور گورنر پنجاب کو یہ احساس شاید ہو چلا ہے کہ پنجاب کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔ مرحوم سلمان تاثیر اوروزیراعلیٰ شہبازشریف جس کسی ایک نقطہ پر متفق تھے وہ یہ تھا کہ کالا باغ ڈیم پنجاب کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس کو پنجاب دشمن قوتیں وقتاً فوقتاً ضربیں لگا کر پنجاب کی زمینوں کو بنجر اور پنجاب کے کسانوں کے معاشی قتل عام کا اہتمام کر رہے ہیں۔ پنجاب جو ایک زرعی اورزرخیز رقبے پر پھیلا صوبہ ہے، پانی کی کمی اور ڈیموں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مردِ بیماربن کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف اندرونی خلفشار کی وجہ سے بُلھے شاہ کی اس دھرتی کو شکاری تقسیم کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ دراصل ہوس اقتدار میں مبتلا کچھ طاقتیں تعصب کی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہیں لیکن ایسے سیاسی دیوالیہ پن کا علاج تقسیم پنجاب نہیں۔ پنجاب اگر تقسیم ہوا تو بلوچستان کے بھی کئی صوبے بنیں گے۔ سرحد میں بھی ہزارہ اور فاٹا کے نام پر صوبے معرض وجود میں آئیں گے۔ سندھ بھی کم از کم تین صوبوں میں تقسیم ہوگا یہ وہ فنڈامینٹل فلسفہ ہے جس کو تقسیم پنجاب کا نعرہ لگانے والے بھول جاتے ہیں۔ اگر میاں شہبازشریف اور گورنر سردار لطیف کھوسہ پنجاب کو احساس تحفظ اور معاشی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں تو ماضی کے تلخ واقعات کو فراموش کرکے آگے بڑھیں۔ پنجاب کے 10کروڑ عوام ان کی
راہیں تک رہے ہیں۔ اقتدار کے پارٹنر ان دونوں ایوانوں کو پنجاب کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے والی گِدھوں کو پیغام دینا ہوگا کہ پنجاب پاکستان کا دل ہے اور دل کی تقسیم سے جسم ہڈیوں کے پنجر اور پنجاب کی لہلہاتی زمینیں سوڈان و صومالیہ کی طرح بنجر ہو جائیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ برصغیر کے اس سب سے زرخیز خطے کی آبیاری کی جائے اس کے زخموں سے چُور بدن پر پیار محبت کی مرہم رکھا جائے۔ اسی طرح گورنر سردار لطیف کھوسہ صاحب جاتی عمرہ اور منصورہ کے بعد ظہور الٰہی شہید روڈبھی جائیں اور پنجاب کی اس قوت کو بھی اعتماد میں لے کر آگے بڑھیں۔ پنجاب دھرتی کو گلستان‘ نخلستان اور اس کے باسیوں کو خوشحال و نہال بنانا ہم سب پر فرض ہے اور یہی ہمارا فرض ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...