آج یوم یکجہتی کشمیر ہے کیسی عجیب بات ہے کہ کشمیر کی وادی چار رنگوں کے ملبوس میں رہنے کے باوجود افسردہ اور آزردہ دکھائی دیتی ہے کشمیر سرسبزوادی تھی جسے بدبخت ڈوگرہ نے محض75 لاکھ روپے کے عوض بیچ ڈالا۔کشمیر سبز ہریالی وادی ہے جو کشمیریوں کے سرخ لہو سے اب لال رہنے لگی ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب کشمیریوں کا لال خون نہ بہتا ہو۔ اس طرح کشمیر کی وادی سبز کے ساتھ سرخی مائل ہو گئی ہے۔ کشمیریوں کی تصویریں اور وڈیو دیکھیں جس میں سفید پانی کی نہریں حوض اور نالیاں بہتیں دکھائی دیں گی اور ہر آنکھ ہرگال سفید موتی جیسے قطروں سے لبریز ہوں گی۔ یہ آنسو اور کفن جو دونوں سفید رنگ کے ہیں۔ اس میں کشمیریوں کا روز کا احتجاج، ہڑتالیں اور یوم سیاہ میں کالا رنگ ابھر آتا ہے۔ اس طرح آج کشمیر سبز، سرخ، سید اور کالے رنگوں میں ڈھل گیا ہے۔ ان میں سبز رنگ میں سکون، نرمی نمو اور خوشحالی ہے جبکہ دوسری طرف سفید میں سکون، پاکیزگی، نیکی، انصاف اور سچائی جھلکتی ہے۔ ٹھیک ایسے ہی سرخ رنگ گہرے جذبات، جوش و جذبے، حرارت، بیقراری، اضطراب اور کچھ کر گزرنے کی علامت ہے۔ سیارہ رنگ موت کا عکاس اور ماتمی رمز ہے۔ کشمیر ا ب انہی چاروں رنگوں کی آمیزش اور آویزش سے برسر پیکار ہے۔ یہ چار رنگ کشمیر کی ساری داستان بتاتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی مصلوب ہے اور کشمیر جل رہا ہے۔ کشمیر کا قضیہ ویسے تو اس وقت شروع ہو گیا تھا جب انگریزوں نے اسے ڈوگرہ راجا کے ہاتھوں 75لاکھ میں بیچ کر ایک نہ ختم ہونیوالے جھگڑے کی بنیاد رکھ دی۔ جاننے والے آج بھی جانتے ہیں کہ انگریزوں کی سرشت میں شرارت، مکاری سازش اور فساد فطرتاً موجود ہے اس امر سے بھی ہر سچا پاکستانی واقف ہے کہ ہندو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ وہ کبھی پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس حقیقت کی آسانی سے مسخ نہیں کیا جا سکتا کہ 1947ءمیں برصغیر کے شمالی علاقہ میں واقع اس وادی میں مسلمان90فیصد اور ہندو 10 فیصد آبادی میں تھے۔ یہ مسلمانوں کا اکثریت والا علاقہ تھا لیکن ڈوگرہ نے مکاری و عیاری سے اسے بھارت کیساتھ ملحق کر کے لاکھوں کشمیریوں کے جذبات اور جانوں کا خون کیا۔ اس بدبخت رو سیاہ نے خطے میں ایسی جنگ کا آغاز کر دیا جس کا اختتام نظر نہیں آتا۔ ڈوگرہ راجا سے لیکر آج تک کشمیر میں کٹھ پتلی حکمرانوں کا راج رہا ہے۔ یہ مسئلہ بھارت سلامتی کونسل میں اٹھا کر لے گیا لیکن اقوام متحدہ آج تک مسئلہ کشمیر کا تصفیہ تو دور کی بات ، اہل کشمیر کو حق خود ارادیت تک نہیں دلا سکا۔
سمجھ نہیں آتا کہ کشمیر گزشتہ 65 برسوں سے خون میں نہا رہا ہے۔ ناانصافی، بربریت اور دہشت گردی نے پوری وادی کو لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن اقوام متحدہ نیند کی گولیاں کھا کر سو رہا ہے۔ ہاں جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اقوام متحدہ بڑا چوکس اور منصف بن گیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف کے ہر کارے مارے مارے پھر رہے تھے لیکن کشمیر میں نفرت و انتقام کی بدترین مثالوں اور لاکھوں کشمیریوں کی بے وقت موت (شہادت) پر اقوام متحدہ کو کیوں اونگھ آ جاتی ہے اور ہیومن رائٹس کا چیمپئن امریکہ اچانک کہاں منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ امریکہ کے صدر، وزیرخارجہ اور آرمی چیف کو یہ بربریت و دہشت گردی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ امریکہ کی بینائی اور سماعت کیوں کام کرنا بند کر دیتی ہے اور اقوام متحدہ کی قوتِ گویائی کہاں چلی جاتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف حرکت میں کیوں نہیں آتی۔ دنیا کے انصاف پسند، انسانیت کے علمبردار، کتے بلیوں کو نزلہ زکام ہونے یا کوئی راہگیر پڑوسی انہیں پتھر مار دے تو وہ تڑپ جاتے ہیں اور عدالت میں مقدمات کر دیتے ہیں۔ اپنے سارے کام دھندے چھوڑ کر کتے بلیوں کو ہسپتال لیکر بھاگتے اور اپنے برتنوں میں کھلاتے، اپنے بستروں میں سلاتے اور اپنے منہ سے انہیں چومتے پچکارتے ہیں لیکن کشمیر میں مرنیوالے معصوم مسلمانوں کے خون بہنے اور مرنے پر بھی ان کی انسانیت نما حیوانگی نہیں جاگتی۔ واہ رے مغرب! تیری انسانیت حیوانیت کے انصاف کے قربان 2001ءکی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی 10 ملین سے زائد تھی۔اس وقت کشمیر کی آبادی لگ بھگ سوا کروڑ ہے۔ 53-700 مربع میل پر مشتمل یہ متنازعہ علاقہ محیط ہے جہاں 1948ءسے لیکر 2013ءتک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب یہاں کسی کو بے موت نہ مارا گیا ہو۔ 1989ءسے 2012ءتک مرنیوالوں کی تعداد94 ہزار ہے۔ 94 ہزار کشمیریوں کو ناحق شہید کیا گیا۔ 1948ءسے ابتک مرنیوالوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ یہ سب ہندوﺅں کے ظلم و ستم اور انتقام کی بھینٹ چڑھائے گئے جیلوں میں قید کر کے 6996کشمیریوں کو تشدد سے ہلاک کیا گیا۔ سوا لاکھ کشمیریوں کو گرفتار کر کے سزائیں دی گئیں۔ 1,05,955 کشمیریوں کی جائیدادوں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ 23000 عورتوں کو زخمی اور گھائل کیا گیا جبکہ 10,045 عورتوں کا گینگ ریپ کیا گیا۔ 1,07841 بچوں کو یتیم کیا گیا۔ تعجب ہے کہ اقوام متحدہ کو ظلم اور جبر کے یہ مناظر نہیں دکھائی دیئے۔ امریکہ کو لاکھوں لوگوں کے ساتھ ہونیوالے بہیمانہ تشدد اور زیادتی کے ان واقعات پر انصاف کرنے کا خیال نہیں آیا۔ ہاں جب اپنے دو ڈھائی ہزار لوگ ایک گھنٹہ میں بغیر اذیت کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں مر گئے تو امریکہ کی پسلیوں بلکہ ہڈیوں تک میں انتقام کی لہر دوڑ گئی۔ یہ انسانیت کا کیسا دوہرا معیار ہے۔ کیا امریکیوں کی چمڑی، کشمیریوں کے نرم و نازک گوشت سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا امریکیوں کا رنگ کشمیریوں سے زیادہ سرخ سفید ہے؟ کیا مریکی کشمیریوں سے زیادہ خوبصورت سبز سنہری آنکھیں اور ناک نقش رکھتے ہیں؟ کیا امریکی کشمیریوں سے زیادہ معصوم اور بے ضرر تھے؟
دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کو امریکہ پر حسن و جمال میں برتری حاصل ہے اور اپنے اعمال و افعال میں بھی فوقیت حاصل ہے پھر کشمیریوں اور امریکیوں میں اتنا تفاوت کیوں ہے؟ لاکھوں کشمیریوں کی بے رحمانہ اور سفاکانہ موت پر خاموشی اور دو ڈھائی ہزار امریکیوں کی موت کا انتقام عراق افغانستان فلسطین پاکستان ایران شام مصر لیبیا لبنان اور اب ترکی سے بھی لیا جا رہا ہے جبکہ اس سارے مخمصے میں زیادہ سے زیادہ افغانستان کو شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسامہ بن لادن کا اصل ٹھکانہ امریکہ تھا یا افغانستان۔ پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا اور ایبٹ آبادکمانڈو ایکشن میں نہ اسامہ ہلاک کیا گیا اور نہ اسامہ وہاں موجود تھا لیکن امریکہ کی منطق، مفاد اور انصاف کو کون چیلنج کر سکتا ہے۔ وہ انصاف کے نام پر جتنے مرضی خون کرے، معاف ہیں۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں 2011-12 کے جو واقعات اور مقدمات سامنے آئے ہیں وہ بھی شرمناک ہیں۔ مختلف جرائم میں ملوث واقعات صرف2012 میں درج مقدمات کی تعداد 24,608 ہے۔ 2011ءمیں خواتین پر گھریلو تشدد کے 286 اور آبروریزی کے 10 فیصد واقعات کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے ایکبار پھر رٹا رٹایا بیان داغا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قیام امن اور تعمیر ترقی کیلئے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے حال ہی میں من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی سے ملاقات کی ہے۔ بظاہر ان کی طرف سے امن وامان کا بیان جاری کیا گیا ہے لیکن عمر عبداللہ کا دور اور ان کے ابا جان کا دور تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے جب اقتدار کی ہوس نے انہیں کشمیریوں کے خون کے سودوں پر آمادہ رکھا۔ یہ نام نہاد مسلمان حکمران محض اقتدار کی خاطر خون میں ہاتھ رنگتا رہے گا۔ کون کشمیر کو آزاد کرائے گا؟ کیا کسی کے سینے میں دل اور دماغ میں انصاف نہیں۔