یومِ یکجہتی۔۔۔ ایک قدم مزید آگے بڑھانے کی ضرورت

5 فروری کو ہر برس یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے. اس دن کو منانے کا آغاز 1990ءکو ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ جبکہ آزادکشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرما کر جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ یوم یک جہتی منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے اتنا ہی کردینے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت پہنچ سکتی اور آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے؟۔آخر ہم کب تک صرف یوم یک جہتی ہی مناتے رہیں گے؟ کیا اب ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بعد مزید ایک قدم آگے نہیں بڑھانا چاہئے؟ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے اس کو بھارت کے پنجہ استبداد سے طاقت کے ذریعے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔آپ نے گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوج کشی کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم دیا تھا۔ جس کی گریسی نے تعمیل نہ کی البتہ مجاہدین نے کشمیر کا ایک بڑا حصہ واگزار کرا لیا جو دنیا کے نقشے پر آزاد کشمیر کے نام سے موجود ہے۔کشمیر کی آزادی کے حوالے سے قائد اعظم کی کمٹمنٹ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ابھی پاک فوج پوری طرح منظم نہیں ہوئی تھی اور اسلحہ کی کمی بھی درپیش تھی ۔افسوس کہ کشمیر کے حوالے سے قائد کے بعد آنے والے کسی حکمران نے بانی پاکستان جیسے عزم و ارادے کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ اب تو پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج اور وہ ایٹمی کا حامل بھی ہے۔جب مجاہدین فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے ہوئے سری نگر تک پہنچا چاہتے تھے کہ بھارت مقبوضہ وادی کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھاگا بھاگا یو این چلا گیا جس نے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کو حق ِ استصواب کی صورت میں تجویز کیا۔ اسے بھارت نے بھی تسلیم کیا لیکن آج 64سال ہونے کو ہیں بھارت نہ صرف کشمیریوں کو یہ حق دینے سے انکاری ہے بلکہ اس نے پچاس کی دہائی میں ہی آئین میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کواپنے صوبے کی حیثیت دے دی۔ وہ کشمیر پر مذاکرات بھی کرتا ہے ، اس کو منافقت کے کس درجے میں رکھا جائے؟مذاکرات میں جو پاکستانی حکومتیں حصہ لیتی ہیں ،ان کی عقل و دانش پر ماتم کیا جائے یا اسے ان کی ڈرامہ کا شاخسانہ قرار دیا جائے کہ بھارت تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے پھر بھی یہ اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں ۔کیا دونوں طرف سے منافقت نہیں ہورہی؟ہماری طرف سے کچھ زیادہ ہی ہورہی ہے۔قائد اعظم نے جس دشمن کے ساتھ کشمیر کا فیصلہ جنگ کے ذریعے کرنے کا عزم کیا ، ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر کی موجودگی اور مزید براں اس کی سیاچن پر جارحیت کے باوجود اس کے ساتھ تجارت کررہے ہیں،دوستی اور تعلقات کو فروغ دیا جارہا ہے اور سب سے بڑھ کر بھارت کو تجارت کے معاملے میں پسندیدہ قوم کا درجہ دینے کی مکمل تیاری کئے بیٹھے ہیں حالانکہ ان کے پاس اتنے بڑے فیصلے کا مینڈیٹ نہیں ہے ۔ اگر پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بھارت کے ساتھ دوستی چاہتی ہے تو اسے اپنے منشور کا حصہ بنا کر عوام سے رائے لے ان پارٹیوں کو آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہو جائے گا۔
 عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے، ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ویر سنگھوی، ٹائمز آف انڈیا کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر سوامی ناتھن، کالم نگار جگ سوریا جیسی شخصیات اپنے مضامین میں بھارتی حکومت سے کشمیریوں کو آزادی دینے کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں کی سطح پر آزادی کشمیر کے لئے کوئی کوشش اور عزم نظر نہیں آتا ،محض بیان بازی کی جاتی ہے،جس سے مسئلہ کشمیر قیامت تک حل نہیں ہوسکتا۔ کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی ایک کشمیر کمیٹی بھی ہے جو آج مولانافضل الرحمٰن کے بھاری بھر کم بوجھ تلے سسک رہی ہے،مولانا کے بزرگوں نے تو فرمایا تھا ’شکر ہے کہ وہ قیام پاکستان کے گنا میں شامل نہیں تھے مولانا کی جماعت نے اپنے بزرگوں کے ایسے اقوال اور افعا ل سے کبھی لاتعلقی ظاہر نہیں کی ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کشمیر کاز کے لئے کتنے کمٹڈ ہیں۔
لاکھوں کشمیری بھارتی سفاک سپاہ کی بربریت کا نشانہ بن کے موت کی آغوش میں جاکر سو گئے ، باقی کو بھی ایسے ہی جانکاہ حالات کا سامنا ہے ، وہ امید بھری نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ مایوس ہوئے تو ان کی الحاق پاکستان کی سوچ خود مختار کشمیر کی سوچ میں ڈھل سکتی ہے ، جس سے بانی پاکستان کی روح تڑپ اٹھے گی۔ایٹمی پاکستان کے حکمران اگر ایٹم بم کو شو کیس کی زینت ہی بنائے رکھنا چاہتے ہیںتو بھی بھارت کو یہ تو باور کانے کی کوشش کریں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر کوئی سودے بازی کرنے پر تیار نہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بھارت کی طرف سے حقیقی کوشش تک اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...