ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جذباتی انداز میں کشمیر کی آزادی تڑپ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہر سیاسی، مذہبی جماعتیں اور سول سوسائٹی کے لوگ سبقت لے جانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جہاں اس کا مقصد کشمیریوں کے ساتھ پوری قوم کا اظہار یکجہتی اور ان کو اپنی حمایت کا یقین دلانا ہوتا ہے۔ وہیں دنیا کو مسئلہ کشمیر کی حقانیت اور نہتے اور بے بس کشمیریوں پر سفاک بھارتی فوج کے مظالم سے آگاہ کرنا بھی ہے۔
قائد اعظم نے کشمیر کو بھارت کے جارحانہ قبضہ سے آزاد کرانے کی کوشش بھی کی تھی۔ لیکن انگریز جرنیل ڈگلس گریسی نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔1948ءکی جنگ کے دوران ہمارے مجاہدین سری نگر رن وے کے قریب پہنچ چکے تھے اور کشمیر کے کمانڈر جنرل اکبر خان نے پاکستان کی حکومت سے 48گھنٹے کی مہلت مانگی تھی کہ مجھے 48گھنٹے دے دیئے جائیں۔ پورا کا پورا کشمیر آزاد ہو جائے گا لیکن بدقسمتی سے انہیں یہ مہلت نہ دی گئی۔ آخر کیوں؟ قائداعظمؒ محمد علی جناح سے طے شدہ وقت کے مطابق کشمیری وفد نے ملاقات کرنا تھی اور وہ زیارت کے مقام پر موجود تھے اور اس ملاقات کو روک دیا گیا۔ آخر کیوں؟ جس کا ذکر قائداعظم آخری سانس تک کرتے رہے۔ 1962ءکی بھارت چین جنگ میں کشمیر کو حاصل کیا جا سکتا تھا لیکن امریکہ کے حکم پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر کیوں؟۔1965ءکی جنگ سے پہلے کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کرد یا اور مقامی آبادی کو اعتماد میں نہ لیا گیا۔ اس کے باوجود مجاہدین 18ماہ تک کشمیر کے اندر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ (جو کشمیریوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی) بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھیڑ دی۔ پاکستان کی بہادر افواج اور بہادر قوم نے اپنے سے دس گنا بڑی طاقت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کئی محاذوں پر فتح حاصل کی لیکن تاشقند معاہدے میں پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کر دیا گیا۔ آخر کیوں؟۔1971ءکی جنگ کے بعد شملہ معاہدے میں سیز فائر لائن کو ختم کر کے کنٹرول لائن بنا کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا۔ جس کی سزا آج تک کشمیری بھگت رہے ہیں۔ آخر کیوں؟۔1984ءمیں بھارت نے جارحیت کرتے ہوئے سیا چن کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا جو تاحال جاری ہے۔ جس کو حاصل کرنے کی بجائے جنرل ضیاالحق نے کہا کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ آخر کیوں؟۔جنرل پرویز مشرف نے اقوام متحدہ کی کشمیریوں کے حق میں متفقہ منظور شدہ قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر بے شمار آپشن دئیے لیکن بھارت کی طرف سے نہ تو کوئی آپشن آیا اور نہ ہی جنرل صاحب کے آپشن کو پذیرائی بخشی گئی۔ بلکہ بھارت نے سیز فائر لائن پر خاردار باڑ لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑ دیا اور باضابطہ کنٹرول لائن کی شکل میں دی گئی۔ یہ سب کچھ جنرل پرویز مشرف کی منشاءکے مطابق ہوا۔ آخر کیوں؟ ۔بھارت، پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں پر 200کے قریب چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روک کر اس کو ریگستان میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی برقرار ہے۔ آخر کیوں؟۔بھارت افغانستان میں قائم اپنے کونسل خانوں کے ذریعے دہشت گردی کو تربیت دے کر پاکستان کے اندر عرصہ سے دہشت گردی کی کارروائی کر رہا ہے۔ ثبوت ہونے کے باوجود حکمران اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے یا عالمی رائے ہموار کرنے اور بھارت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے اس کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ ۔حال ہی میں ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے اعلان کیا کہ کشمیر کا مسئلہ اور بھارت کے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور پاکستان کو ہر قیمت پر بھارت کی خوشنودی حاصل کرنی ہے۔ آخر کیوں؟ ۔
وزارت امور کشمیر اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا 5سالہ کردار بھی سوالیہ نشان ہے؟ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کی قیادت اب تیسری نسل کے پاس آ چکی ہے اور یہ نوجوان نسل آزادی سے کم کسی چیز پر سودا بازی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کشمیریوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت اپنے ظلم کی انتہا کرے لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹیں گے کیونکہ ان کی کئی نسلوں نے آزادی کی راہ میں اپنا خون بہایا ہے۔ شہداءکا مقدس لہو ان سے تقاضا کرتا ہے کہ و ہ آزادی کی طرف بڑھنے والے اس کارواں کو نہ رکنے دیں۔ کشمیریوں نے اپنی بے مثال جدوجہد سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آزادی کی تحریکیں محض عسکری سازوسامان اور افرادی قوت سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اس جذبہ کی ضرورت ہے جس کے تحت آزادی کے سفر میں مائیں اپنے جوان بیٹوں، باپ اپنے سہاروں، بیویاں سرتاجوں، اور بہنیں اپنے پیارے بھائیوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتیں۔ کشمیریوں نے اپنی لازوال قربانیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ آزادی لے کر ہی دم لیں گے لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی بھارت یہ سمجھ رہا کہ صرف عسکری طاقت اور ظلم کے مختلف طریقوں سے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا بھارت کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے سے صرف پاکستان اور ہندوستان کا امن ہی نہیں بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے فریق اور کشمیریوں کے وکیل پاکستان کو مصلحت اور مجبوری کو بالائے طاق رکھ کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ ہمیں آنے والی نسلیں اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی؟