مسلم لیگ (ن) .... حالیہ نشیب و فراز

Feb 05, 2013

ساجد حسین ملک

2008ءکے عام انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں اور پارلیمان میں اپنی نمائندگی کی بنا پر بلاشبہ مسلم لیگ ن ملک کی دوسری بڑی قومی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ مرکز میں وہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے اور اپوزیشن لیڈر کا تعلق اس سے ہے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسکی حکومت قائم ہے اور اب جب ملک میں عام انتخابات سر پر ہیں تو مسلم لیگ ن اپنی عوامی پذیرائی، پنجاب حکومت کی پنج سالہ کارکردگی اور اپنی اصولی سیاست کی بنیاد پر ان انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کیلئے پُرامید ہے۔
مسلم لیگ ن کی آئندہ انتخابات میں بڑی کامیابی کی امید کا پورا ہونا کوئی ایسا بعید نظر نہیں آتا کہ اس نے اس حوالے سے خاصا ہوم ورک کر لیا ہے۔ عام تاثر بھی یہی ہے کہ مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ اگر دیکھا جائے تو قرآئن ، شواہد ، تبصرے، تجزیے، زمینی حقائق ، سروے رپوٹیں اور ”زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو“ جیسے قول سبھی اس تاثر کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک آئی آر آئی (انٹرنیشنل ریپبلک انسٹی ٹیوٹ) اور جناب اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ سروے آف پاکستان کی سروے رپوٹوں کے اعداد و شمار جو کچھ عرصہ قبل جاری کئے گئے تھے ان میں بھی مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو متحارب سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک پر برتری حاصل تھی۔ آئی آر آئی نے جو اب تازہ سروے جاری کیا ہے اس میں بھی دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک میں کمی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے اور مسلم لیگ ن 32 فیصد حمایت کے ساتھ ملک کی مقبول ترین جماعت کی حیثیت کی مالک ظاہر کی گئی ہے۔ انکے علاوہ گزشتہ ڈیڑھ دو برسوں میں مختلف حلقوں کی طرف سے مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کی جو عیاں اور نہاں کوششں ہوتی چلی آ رہی ہیں اور خفیہ اور ظاہر ہاتھ جس طرح ان کوششوں کے پیچھے سرگرم عمل رہے ہیں ان سے یہ خیال قوی ہوتا ہے کے مسلم لیگ ن کی عوامی پذیرائی کا گراف یقینا اتنا اونچا ہے کہ بعض حلقوں کو یہ بوجوہ گوارا نہیں اور وہ اس کو ایک خاص حد تک محدود رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں مختلف آپشنز اور لائحہ عمل اختیار کرتے رہتے ہیں۔
پچھلے ڈیڑھ دو برسوں کی قومی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کا اجمالی سا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی قومی سیاسی حیثیت کو ٹھوس بنیادوں پر مستحکم کرنے میں خاصی پیشرفت کی ہے اس میں جہاں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا بڑا ہاتھ ہے کہ انہوں نے جمہوری اصولوں سے اپنی وابستگی اور آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے اپنے دعووں کو عملی طور پر اپنائے ہی نہیں رکھا ہے بلکہ ملک بھر میں سیاسی لحاظ سے بااثر شخصیات کو اپنی جماعت میں شامل کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں وہاں اس میں مسلم لیگ ن کی میڈیا ٹیم کا بھی بڑا عمل دخل ہے ۔سال ڈیڑھ سال قبل عمران خان کا سونامی مسلم لیگ ن اور اسکے قائدین کو اپنی لپیٹ میں لینے کیلئے آگے بڑھنا شروع ہوا تو مسلم لیگ ن کی میڈیا ٹیم بڑے منظم اور بھرپور انداز میں اسکے سامنے سینہ سپر ہوگئی۔ جو مسلم لیگی قائدین بالخصوص میاں نواز شریف کے مثبت رویوں کی تعریف و تحسین اور ترجمانی کرنے اور اسکے مقابلے میں عمران خان کو ایک تُندخو، متلون مزاج اور سیاسی طور پر نابالغ کردار کے روپ میں پیش کرنے اور انکی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اور عوامی پذیرائی کو مصنوعی اور خفیہ ہاتھوں کی مرہون منت قرار دینے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن سے ذہنی وابستگی رکھنے والے قلمکاروں نے خود ساختہ شیخ الاسلام کے بہروپیا کردار، ان کی شخصیت کے کھوکھلے پن اور ان کے لانگ مارچ اور دھرنے اور اسلام ڈیکلریشن کے ڈرامے سے جس طرح پردے ہٹائے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ایک زبردست کاوش ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن کو اصولی سیاست کی دعویدار ہونے کے باوجود مسلم لیگ ق کے نام نہاد فارورڈ بلاک کے ارکان صوبائی اسمبلی کو سینے سے لگانے کی بنا پر بے اصولی کی سیاست کرنے اور سیاست میں ”لوٹا ازم“ کو فروغ دینے کی وجہ سے کڑی تنقید کا نشانہ بننا پڑتا رہا ہے۔ اسی طرح اسے مرکز میں پیپلز پارٹی کی نااہل اور بدعنوان حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سُننے پڑتے رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے نشیب و فراز اور اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بات اسی پر ختم نہیں ہوتی اب اسرار کھل رہے ہیں کہ ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کے پُرکشش نعرے اور زبردست تشہیری مہم کے جلو میں خود ساختہ شیخ الاسلام کی کینیڈا سے پاکستان آمد، بے پناہ مالی وسائل اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر لاہور میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ، اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے ڈی چوک میں دھرنا بالآخر حکومتی اتحاد کے وفد سے کامیاب مذاکرات اور اسلام آباد ڈیکلریشن پر دستخط یہ سب کچھ بھی اصل میں مسلم لیگ ن کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش تھی۔ لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے حضرت شیخ الاسلام کے غیر آئینی مطالبات کے سامنے ایک مضبوط مو¿قف اختیار کر کے اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ میاں نواز شریف نے دانائی ، بصیرت اور سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام کے اسلام آباد دھرنے کے عین کلائمکس (عروج) کے وقت جاتی عمرہ رائے ونڈ میں اپنی رہائش گاہ پر اپوزیشن جماعتوں کو اکھٹا کر کے اور پاکستان میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کے خلاف مشترکہ مزاحمت کے حوالے سے دس نکاتی اعلامیہ منظور کروا کے حضرت شیخ الاسلام کے ذریعے کی جانے والی کوشش کو ناکام بنا دیا تاہم اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن کی منظوری کے بعد یہ دکھائی دیتا ہے کہ انجام کار پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان مسلم لیگ ق ، متحدہ قومی موومنٹ ، پاکستان تحریک انصاف اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے حامی اور انکی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک ایسا اتحاد وجود میں آ سکتا ہے جسے بعض نادیدہ طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہو گی اور آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن اس اتحاد میں شامل جماعتوں یا طاقتوں کا سب سے بڑا نشانہ ہوگی۔
مسلم لیگ ن کے مخالفین مسلم لیگ ن اور اسکی اعلیٰ قیادت کے خلاف اپنی کوششوں اور منصوبہ بندی میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کو اپنے اندر سے دو تین ایسے دھچکے لگے ہیں جو اس کی صفوں میں کمزوری کا سبب ضرور بنے ہیں۔ میرا اشارہ مسلم لیگ ن چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے بعض اہم افراد کی طرف ہے۔ سرائے عالمگیر جہلم سے راجہ محمد افضل کا اپنے دو بیٹوں ممبران قومی اسمبلی راجہ محمد اسد اور راجہ محمد صفدر سمیت مسلم لیگ ن چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا یقیناً مسلم لیگ ن کیلئے ایک دھچکے کی بات تھی۔ مسلم لیگ ن ابھی اس دھچکے سے سنبھل پائی تھی یا نہیں کہ مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے سنئیر مشیر سردار ذوالفقار کھوسہ کے صاحبزادے ممبر قومی اسمبلی سردار سیف الدین کھوسہ نے جو عرصے سے اپنے والد اور اعلیٰ مسلم لیگی قیادت سے شاکی تھے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کے سایہ عاطفت کو اپنے لئے چُن لیا ہے۔ غرضیکہ ان اہم افراد کے مسلم لیگ ن کو داغ مفارقت دینے سے جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حیثیت پر ضرور اثر پڑے گا لیکن شمالی پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک مستحکم ہے۔

مزیدخبریں