لندن (نیٹ نیوز + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) افغانستان اور پاکستان کے صدور آصف علی زرداری اور حامد کرزئی نے برطانیہ میں مذاکرات کے دوران کہا ہے کہ وہ اگلے چھ مہینوں میں افغانستان کے لئے امن کے معاہدے کے حصول کی کوشش کریں گے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے بعد دونوں رہنماوں نے کہا کہ ایسا مقصد حاصل کرنے کے لئے وہ تمام اقدامات کریں گے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ مذاکرات میں دونوں رہنماوں نے خلاف معمول حد تک تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔ مذاکرات میں اس بات پر غور کیا گیا کہ پاکستان افغانستان سرحد پر امن کس طرح قائم کیا جا سکے۔ صدر کرزئی نے طالبان رہنماوں سے اپیل کی کہ وہ امن کے عمل میں شرکت کریں تاکہ ہر کوئی افغانستان کے مستقبل کی تعمیر میں حصہ لے سکے۔ ان رہنماوں نے دوحہ میں دفتر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تاکہ طالبان اور افغان حکام کے درمیان وہاں ملاقاتیں ہو سکیں۔ سہ فریقی کانفرنس کے دوران پاکستان، برطانیہ اور افغانستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھتے ہوئے اتفاق کیا ہے، تینوں ممالک نے چھ ماہ میں افغان امن عمل کو کامیابی تک پہنچانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔ طالبان سے بھی کہا گیا ہے کہ دوحہ میں دفتر کھولنے اور مذاکرات کیلئے اہم اقدامات کریں۔ صدر آصف علی زرداری اور ان کے افغان ہم منصب حامد کرزئی نے برطانیہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد افغانستان میں قیام امن کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے اگلے چھ ماہ میں افغانستان میں امن قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ بات چیت میں پاکستان اور افغانستان کی افواج اور خفیہ اداروں کے سربراہ بھی شریک ہوئے جس سے مفاہمتی عمل کے حساس ترین پہلوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے صدور اور برطانوی وزیراعظم نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ طالبان اور افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل مذاکرات کیلئے دوحہ میں دفتر کھولنے کی حمایت کرتے ہیں۔ کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستحکم اور پائیدار تعلقات پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے ہرممکن تعاون کریں گے، ہم افغان قیادت کے طالبان رہنماﺅں سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ کرزئی نے کہا کہ پاکستان سے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ ان مذاکرات کی میزبانی برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کی۔ صدر کرزئی نے طالبان کو مذاکرات میں شرکت کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ افغانستان میں ہر ایک کو ملک میں امن کے لئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ برطانیہ کے درمیان افغانستان میں امن عمل پر اہم سہ فریقی مذاکرات کا باقاعدہ آغاز پیر سے لندن میں ہوا۔ یہ تیسرا موقع ہے کہ تینوں ممالک نے ان مذاکرات میں شرکت کی جن کا مقصد خطے میں توازن کو فروغ دینا ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اس بات چیت میں پاکستان اور افغانستان کی افواج اور خفیہ اداروں کے سربراہ شریک ہیں اور جس سے مفاہمتی عمل کے حساس ترین پہلوو¿ں سے نمٹنے میں مدد دے گی۔ ان سہ فریقی مذاکرات کے عمل کا آغاز برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کیا تھا۔ برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے باہمی تعاون کا فروغ ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پاکستان اور افغانستان کے صدور کے اعزاز میں شمالی لندن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ دیا۔ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سہ فریقی مذاکرات طالبان کو واضح پیغام ہے کہ اب ہر ایک لئے افغانستان میں پُرامن سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے مذاکرات میں شرکت کا مناسب موقع ہے۔ ہم ماضی میں بھی کہہ چکے ہیں کہ مستحکم افغانستان صرف افغانیوں کے ہی نہیں بلکہ ان کے ہمسایوں اور برطانیہ کے مفاد میں بھی ہے۔ کرزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ اب جبکہ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہونے والا ہے وہ ان غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہتے جو ربع صدی قبل روس کے افغانستان سے انخلا کے موقع پر وقوع پذیر ہوئیں اور جنہوں نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا تھا۔ افغان حکومت نے اپنی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ پاکستان کی جانب سے بہت سے طالبان کی رہائی کو مثبت قدم کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن افغان حکام ملا برادر کی رہائی چاہتے ہیں۔ افغان حکام کو امید ہے ان کی سطح کے ایک اعلیٰ طالبان اہلکار کی مدد سے طالبان کو کابل میں جاری مذاکرات میں شریک کرنے میں مدد ملے گی۔ کرزئی نے کہا کہ غیرملکی افواج کے بعد طالبان سے مذاکرات پیچیدہ عمل ہو گا، ہم سے ہزاروں طالبان نے رابطے کئے جو مذاکرات چاہتے ہیں ہم پاکستان کے تعاون سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ افغانستان سے زیادہ دہشت گردی کا شکار پاکستان ہے۔ ابھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مثبت نتائج آنا شروع نہیں ہوئے۔ افغان امن تب بحال ہو گا جب جنگ میں مصروف بیرونی عناصر سے معاہدے ہونگے۔ لندن (نوائے وقت رپورٹ + اے پی اے) لندن میں سہ فریقی مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں کونہیں بدل سکتا، امن کےساتھ رہنا چاہتے ہیں، افغانستان میں امن کا مقصد پاکستان میں امن ہے پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی حمایت اور مدد کرنا چاہتا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ طالبان سمیت افغانستان کے تمام گروپوں کیلئے ملک کے سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا یہ سب سے بہترین موقع ہے۔ صدر حامد کرزئی نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے پاکستان انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں مستقبل میں یہ مزید بہتر ہوں گے۔ لندن میں پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کے درمیان ہونےوالے سہ فریقی مذاکرات کا مقصد 2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں تینوں ممالک کے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ پاکستانی سینٹ میں خارجہ ا±مور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر حاجی عدیل نے بتایا کہ اجلاس میں پاک افغانستان دو طرفہ تعلقات خاص طور پر ’سرحدی امور‘ بھی موضوع بحث رہیں گے۔ صدرآصف علی زرداری ، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی نے مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ تینوں ممالک کے درمیان مضبوط اور پائیدار تعلقات قائم کیے جائینگے، صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ تینوں ملکوں کے درمیان مضبوط شراکت داری کیلئے پرعزم ہیں، افغانستان میں امن عمل کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کرینگے، افغان قیادت کے طالبان سے مذاکرت کی حمایت کرتے ہیں، صدر زرداری نے کہا کہ افغانستان میں امن قائم ہوگا تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونگے، پاکستان اور افغانستان کے عوام امن کے خواہش مند ہیں، دونوں ممالک کے د رمیان تعلقات کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا، پاکستان اور افغانستان میں امن سے خطے میں مثبت اثرات مرتب ہونگے، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا پاکستان، افغانستان تعلقات مزید مستحکم کرنے پر اتفاق ہوا ہے، ایسے امن عمل کی حمایت کرتے ہیں جس کو افغان عوام کی حمایت حاصل ہوگی، پہلی دفعہ تینوں ممالک کی سیاسی اور فوجی قیادت سے کانفرنس میں شرکت کی ہے، ایسے مذاکرات خطے میں امن کیلئے مفید ثابت ہونگے، پاکستان اور افغانستان کی عوام نے سب سے ز یادہ دہشتگردی کی جنگ میں نقصان اٹھایا ہے، انہوں نے امید ظاہر کی اس سہ فریقی کانفرنس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل کو کم کرنے میں مدد ملے گی، حامد کرزئی نے کہا کہ برطانوی وزیراعظم کے امن عمل کیلئے کیے گئے اقدامات کو سراہتے ہیں، پاکستان کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں،کانفرنس کے انعقاد اور مسائل کے حل کیلئے مدد فراہم کرنے پر برطانوی حکومت کے شکرگزار رہےں گے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ اب جبکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاءہونے والا ہے وہ ان غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہتے جو ربع صدی قبل روس کے افغانستان سے انخلاءکے موقع پر وقوع پذیر ہوئیں اور جنہوں نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا تھا۔ افغان حکومت نے اپنی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے بہت سے طالبان جنگجوو¿ں کی رہائی کو ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن افغان حکام ملا برادر کی رہائی چاہتے ہیں جو افغان طالبان کے سابق نمبر دو کمانڈر رہے ہیں جس سے افغان حکام کو امید ہے ان کی سطح کے ایک اعلیٰ طالبان اہلکار کی مدد سے طالبان کو کابل میں جاری مذاکرات میں شریک کرنے میں مدد ملے گی۔ ان مذاکرات سے واقف ایک سینئر فوجی افسر کا کہنا ہے کہ دونوں وفود کے درمیان امریکی انخلا کے پس منظر میں بعض بنیادی نوعیت کے معاملات پر بات چیت ہوئی تھی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں امریکی انخلا کے بعد پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کے مشترکہ کنٹرول، دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان مضبوط روابط، افغان امن عمل میں پاکستانی کردار، دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تربیت کے معاہدے اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور معاشی ترقی کے معاملات شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاءکے بعد کی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سہ فریقی کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان نے ملک میں امن و استحکام کیلئے طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل میں بھرپور تعاون اور تجارت، معیشت، عوامی رابطوں اور مہاجرین کی واپسی کیلئے تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا ہے برطانیہ نے یقین دلایا کہ وہ ان کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرے گا اور فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے خارجہ امور، داخلہ اور تجارت کے وزراء فروری کے دوران تعاون بڑھانے کے لئے ملاقاتیں کرینگے۔ برطانوی اخبار سے انٹرویو میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ طالبان سے مذاکرات میں بطور معاون پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان پر طالبان کی مدد کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام بے بنیاد ہے۔ پاکستان خود طالبان کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہا ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی معیشت دہشت گردی کی وجہ سے خسارے میں ہے اور پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی، بیروزگاری سمیت کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان ایک ساتھ دہشتگردی، انتہا پسندی، بیروزگاری اور مہنگائی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان، افغانستان سمیت تمام پڑوسی ممالک سے اپنے اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتاہے۔ افغانستان اور پاکستان کی عسکری اور انٹیلی جنس قیادت نے باہمی تعاون کو استحکام دینے کےلئے نئے میکانزم پر اتفاق کیا ہے جبکہ پاکستان ¾ افغانستان اور برطانیہ نے افغانستان میں قیام امن کےلئے آئندہ چھ ماہ کے دور ان پر امن حل کے ہدف کے حصول کےلئے تمام ضروری اقدامات کر نے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ امن عمل سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قریبی تعلقات کو استحکام ملے گا ¾ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل مدتی استحکام یقینی بنا نے کےلئے دونوں ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی کے تعلقات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ¾ سٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر پیشرفت کی ضرورت ہے ¾ خواہش ہے پاکستان اور افغانستان کی افواج اور سکیورٹی سروسز کے درمیان تعاون اور وسیع اعتماد قائم ہو۔ سہ فریقی اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں افغانستان اور پاکستان کے صدور کے مشترکہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ¾ چیفس آف ڈیفنس سٹاف ¾ انٹیلی جنس سربراہوں ¾ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور افغان امن کونسل کے سربراہ نے شرکت کی ۔برطانوی وزیر اعظم کی میزبانی میں گذشتہ سال سے اب تک ہونے والایہ اس نوعیت کا تیسرا اجلاس تھا جس کا مقصد افغانیوں کی قیادت میں امن اور مصالحت کے عمل پر تبادلہ خیال کر نا اور انتہا پسندی کے خاتمے کےلئے مشترکہ کوششوں کو مستحکم کر نے کے علاوہ علاقائی امن و سلامتی کو فروغ دینا تھا۔ رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے اجلاس کے بعد اس حوالے سے نمایاں پیشرفت ہوئی ہے اس عمل میں پیش رفت کی رفتار اور تسلسل جاری رہنا چاہئے۔افغانستان اور پاکستان کے وفود نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذاکرات کے معیار اور باہمی تعاون میں نمایاں بہتری آئی ہے باہمی مفاد کے جذبے سے بھرپور کوششیں جاری رکھی جائیں گی ۔ فر یقین نے دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی استحکام یقینی بنا نے کے لئے افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا ۔تینوں رہنماﺅں نے افغانستان میں امن اور مفاہمت کے عمل میں ہونے والی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا افغان صدر حامد کرزئی اور ان کے وفد نے امن اور مصالحت کے سلسلے میں افغان وژن اور روڈ میپ کے حوالے سے بریفنگ دی صدر زرداری نے افغانستان میں امن اور مفاہمت کے سلسلے میں پاکستان کی مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ تمام فریقوں نے اس حوالے سے تیزی سے اقدامات پر اتفاق کرتے ہوئے آئندہ چھ ماہ کے دور ان پر امن حل کے ہدف کے حصول کےلئے تمام ضروری اقدامات کر نے کے عزم کا اعادہ کیا۔ صدر کرزئی اور صدر زرداری نے 26 ستمبر 2012ء کے اجلاس کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے کے حوالے سے پیشرفت ہونی چاہئے۔