اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) الیکشن کمشن کی مضبوطی اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لئے مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت 13 اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمشن تک مارچ کیا اور پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دیا۔ شرکا نے الیکشن کمشن کو ایک متفقہ قرارداد پیش کی۔ متحدہ اپوزیشن نے 4 نکات پر مشتمل قومی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔ ان مطالبات میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نگران حکومتیں قائم ہوتے ہی گورنروں کو ہٹا دیں اس کے علاوہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ افسروں کے تبادلوں، سندھ اور بلوچستان میں قائد حزب اختلاف کی تقرری، کراچی میں نئی حلقہ بندیوں اور شفاف بنیادوں پر انتخابی فہرستوں کی تصدیق کا مطالبہ کیا گیا۔ یادداشت الیکشن کمشن کے رکن شہزاد اکبر خان کو پیش کی گئی جو چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دی گئی ہے۔ چارٹر آف ڈیمانڈ کا اعلان جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے دھرنے کے دوران کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان، سینیٹر اسحاق ڈار، سینیٹر راجہ ظفر الحق، لیاقت بلوچ اور دیگر جماعتوں کے رہنماﺅںکی قیادت میں پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے دھرنا دیا۔ دھرنے میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی ریلیوں نے شرکت کی، کارکنوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ شاہراہ دستور گو زرداری گو، اب راج کرے گی خلق خدا کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی دھرنے اور مارچ میں شرکت کی۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمشن، عدالت عظمیٰ کی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ، عدالتی احکامات کے مطابق کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے دھرنا دیا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے مشترکہ قرار داد پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل)، پاکستان مسلم لیگ (ہم خیال)، جے ےو آئی (ف)، جمعیت علمائے پاکستان، جمہوری وطن پارٹی، عوامی تحریک سندھ، سنی تحریک، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، متحدہ قبائل پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی کے نمائندگان اور پارلیمنٹرینز نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے دھرنا دیا اور الیکشن کمشن تک مارچ کیا۔ یہ کراچی میں دئیے گئے تین دھرنوں کا تسلسل ہے۔ قرارداد میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ہم الیکشن کمشن پر جس کی اتفاق رائے سے آئین پاکستان کی روشنی میں تشکیل ہوئی ہے اس پر مکمل اور غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم غیر آئینی اور غیر سیاسی قوتوں کی ان بدنیتی پر مبنی سازشوں کی بھرپور مزاحمت کرتے ہیں جن کا مقصد الیکشن کمشن کو متنازعہ بنانا ا ور اس کو اپنے کردار سے روکنا ہے اور آنے والے انتخابات کو التوا کا نشانہ بنانا ہے ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ الیکشن کمشن آف پاکستان ان امور کو عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق کراچی کی نئی حلقہ بندیوں کو فوری طورپر مکمل کیا جائے، انتخابی فہرستوں کی گھر گھر تصدیق کا عمل شفاف انداز سے بغیر کسی سیاسی مداخلت کے فوج کی مدد سے فوری طورپر مکمل کیا جائے ۔ نگران حکومت قائم ہوتے ہی الیکشن کمشن تمام گورنرز کو ہدایت کرے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں یا ہٹا دئیے جائیں تاکہ غیر جانبدار گورنروں کی تقرری ہو سکے۔ تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسر جن کی فہرست منسلک ہے ان میں داخلہ، کیبنٹ، اسٹیبلشمنٹ، اطلاعات و نشریات اور خزانہ کے وفاقی سیکرٹریز، صوبائی چیف سیکرٹریز، پولیس کے صوبائی سربراہوں، اسلام آباد کے کمشنر و انسپکٹر جنرل کا تبادلہ، نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے دن ہی کر دیا جائے۔ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کی اسمبلیوں میں لیڈر آف اپوزیشن کی فوری تقرری کی جائے تاکہ وہ نگران وزرائے اعلیٰ کے انتخاب میں آئینی کردار ادا کر سکیں۔ دھرنے اور مارچ میں کراچی میں دھرنا دینے والی جماعتوں کے رہنماوں مےں جے ےو آئی کے حاجی روز الدےن رکن قومی اسمبلی، محمد حسین محنتی، سلیم ضیائ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے شاہ محمد شاہ، سنی تحریک کے شاہد غوری، قوم پرست رہنماﺅں غلام گلزار چانڈیو، ظہور بلوچ، شاہ انس نورانی مسلم لےگ فنگشنل کے حاجی خدا بخش اور جادم منگرےو اور دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی۔ آزادکشمیر سے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور شاہ غلام قادر کی قیادت میں بھی ریلی دھرنے و مارچ میں شریک ہوئی۔ چودھری نثار الیکشن کمشن کے دفتر نہیں گئے۔ قرارداد میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان آزاد کشمیر اور چیف کمشنر اسلام آباد کی تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا۔ دریں اثناءاپوزیشن جماعتوں اور الیکشن کمشن کا اجلاس 6 فروری کو ہو گا۔ مارچ کے شرکا اور الیکشن کمشن کے درمیان فیصلہ ہوا کہ اپوزیشن اور الیکشن کمشن کا اجلاس 6 فروری کو ہو گا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ انہیں الیکشن کمشن پر اعتماد ہے۔ کراچی کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم ضیاءنے کہا کہ ووٹروں کی تصدیق کے لئے صرف الیکشن کمشن کا عملہ جا رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ سب کے اتفاق رائے سے فخرو بھائی منتخب ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی فخرو بھائی کو ڈرا دھمکا نہ سکے۔ اپوزیشن کے 7 رکنی وفد نے اپنی یادداشت الیکشن کمشن میں پیش کر دی۔ اطلاعات کے مطابق وقفے وقفے سے بارش کے باوجود کارکنوں میں خاصا جوش و خروش دکھائی دیا۔ بیشتر لوگوں کے پاس چھتریاں بھی نہیں تھیں تاہم ارکان اسمبلی کی قیادت میں کارکن نعرے بازی کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز شریف نے کہا کہ یہ دھرنا جمہوریت کی مضبوطی کا تسلسل ہے اور الیکشن کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی، الیکشن کا التوا قبول نہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اچانک دھرنے کو مارچ میں تبدیل کر دیا، 31 جنوری کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما چودھری نثار نے دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) و دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ سے الیکشن کمشن کی طرف مارچ کیا۔ دھرنے سے قبل چودھری نثار کی زیرصدارت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مارچ کر رہے ہیں۔ الیکشن کمشن کے دفتر تک مارچ کرینگے۔ چودھری نثار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانا ممکن نہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بڑی اپوزیشن پارٹی ہے، جہاں موجود ہوگی اس کا نام لیا جائےگا۔ مسلم لیگ (ن) کے میمورنڈم میں کہا گیا کہ ہم الیکشن کمشن سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ الیکشن کمشن آئین کے تحت متفقہ طور پر تشکیل دیا گیا۔ الیکشن کمشن کو متنازعہ بنانے کا مقصد اس کے کام میں روڑے اٹکانا ہے، انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا مطالبہ بھی کیا اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ احکامات کے مطابق کراچی میں حلقہ بندیاں کی جائیں۔ گھر گھر جاکر ووٹر کی تصدیق فوج کی حمایت سے کی جائے۔ نگران سیٹ اپ سے پہلے تمام گورنرز استعفیٰ دیں یا انہیں ہٹایا جائے۔ چودھری نثار الیکشن کمشن نہیں گئے۔ الیکشن کمشن میں لیاقت بلوچ، سلم ضیائ، انجم عقیل اور کیپٹن (ر) صفدر موجود تھے۔ جے یو پی کے رہنما شاہ اویس نورانی نے کہا کہ ہم فوج کی نگرانی پرامن انتخابات چاہتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی متفقہ قرارداد پر عملدرآمد کیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی محمد حسین محنتی نے کہا کہ بوگس ووٹوں کیخلاف دھرنا دیا۔ تصدیق کے عمل کو بھی ایم کیو ایم نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ رکن الیکشن کمشن شہزاد اکبر نے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپکی کوششیں وطن سے محبت کا اظہار ہے۔ آپ نے جو اعتماد کیا وہ الیکشن کمشن کی 75 فیصد کامیابی ہے۔ فریضہ سمجھ کر اپنی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے کراچی میں بیٹھنے کا مقصد حالات درست کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپکے تعاون سے کراچی کے حالات کنٹرول میں آجائیں۔ چاہتے ہیں کہ صاف شفاف انتخابات کروانے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایسا میکانزم ترتیب دیا ہے کہ کوئی غلط ووٹ نہ ڈال سکے۔