اسلام آباد (نیٹ نیوز/ بی بی سی+ ایجنسیاں) مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے لئے حکومت کی ضمانت دینے کے لئے اعتماد کے اظہار پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے مگر سب طالبان سے بات چیت کی ضرورت پر متفق نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سنیٹر مشاہداللہ خان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ طویل عرصہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے بہت ساری جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات سے اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکلے۔ انہوں نے طالبان کے بیان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان جس طرح سے آیا اور اس معاملے کی حساسیت دیکھتے ہوئے یہ کس کا بیان ہے؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ پھر یہ کہ مسلم لیگ ن جماعت اسلامی اور فضل الرحمن گروپ ان سب کی بھی آپس میں اس معاملے پر مشاورت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف یہاں پر نہیں ان کی جماعت اس پر مشاورت کے بعد ہی کوئی بیان دے گی۔ جب اس معاملے میں جماعت اسلامی کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ فرید پراچہ سے جماعت اسلامی کا ردعمل جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا کسی سے کوئی رابطہ ہے نہ طالبان سے نہ ان کے کسی گروہ سے نہ ہمیں کسی نے اس سلسلے میں کوئی رابطہ کیا ہے۔ یہ بات ہم تک میڈیا سے پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت مذاکرات کے حق میں ہے۔ طالبان کا موقف سنا جائے اگر کسی طریقے سے بھی امن قائم ہو سکتا ہے تو اسے قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے۔ جہاں تک جماعت اسلامی کی ضمانت کا تعلق ہے تو جماعت اسلامی اب تک ان معاملات میں کبھی نہیں آئی۔ جے یو آئی ف کے مرکزی رہنما مفتی ابرار نے کہا کہ اس سلسلے میں پارٹی میں مشاورت جاری ہے۔ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پیشکش کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں عائد شرائط صحیح سمت میں پیشرفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ امن مذاکرات کے لئے فاٹا کا گرینڈ جرگہ بہترین فورم ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اور ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل حافظ حسین احمد نے کہا کہ جے یو آئی اس پیشکش پر مشروط طور پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ جے یو آئی کا شروع سے موقف رہا ہے کہ مسائل اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے طاقت کے ذریعے نہیں۔ این این آئی کے مطابق جماعت اسلامی نے تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو مفید بنانے کے لئے ضامن بننے سے انکار کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) نے کسی تبصرے سے گریز جبکہ جے یو آئی (ف) نے اس کے لئے جرگہ بلانے کی تجویز دی۔ جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل فرید احمد پراچہ سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم کس طرح مذاکرات میں ضامن کا کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ حکومت اسمبلی کی قرارداد پر عملدرآمد کے لئے تیار نہیں۔ جماعت اسلامی ایک ضامن کے طور پر آگے بڑھے گی کیونکہ ہمارا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی انہوں نے ہم سے ہمارا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی پارٹی کی قیادت اس معاملے پر بات چیت پر تیار تھی لیکن ان کی رائے تھی کہ تمام معاملات کو جرگے کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ محض ایک وڈیو کی بنیاد پر جس کی کوئی تصدیق بھی نہیں ہو سکی اس پر کوئی تبصرہ کرنا نامناسب ہو گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس ہونے والی قرارداد پر مکمل طور پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ وہ فنکشنل مسلم لیگ سندھ کے صدر امتیاز شیخ کی رہائش گاہ پر اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ غلام احمد بلور نے کہاکہ امن کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات کے لئے طالبان کی جانب سے نواز شریف، منور حسن اور فضل الرحمن کی ضمانت پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں اس سے قبل فنکشنل مسلم لیگ نے دہشت گردی کے خلاف اے این پی کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کر لی۔
تحریک طالبان کی پیشکش مثبت ہے‘ گرینڈ جرگہ بلایا جائے : فضل الرحمن‘ ضامن نہیں بن سکتے : جماعت اسلامی
Feb 05, 2013