”مجاہدِ آزادی۔ رائے احمد خان کھرل!“

آج پاکستان میں کشمیر کے دونوں طرف اور دُنیا بھر میں کشمیریوں سے یک جہتی کا دِن منایا جا رہا ہے۔ آدھا کشمیر ہمارے پاس ہے اور آدھا بھارت کے قبضے میں۔یعنی ہم نے 1947ءمیں جو آزادی حاصل کی تھی وہ ابھی ادھُوری ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی اپنی تقریروں اور تحریروں میں قائدِ اعظمؒ کا یہ قول بیان کرتے ہوئے اکثرکہتے ہیں کہ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“ اور ہمیں اپنی شہ رگ کو بھارت کے پنجے سے چھُڑانا ہوگا“۔ متحدہ ہندوستان میں آزادی کی جنگ 12مئی 1857ءکو یوپی(اتّر پردیش) کے شہر میرٹھ سے شروع ہوئی تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔ پھِر ہندوستانیوں کو آزادی کے حصول میں 100سال لگ گئے تھے۔ اسلامیانِ ہند کو حضرت قائدِ اعظم ؒ کی قیادت میں آزادی حاصل کئے66سال 5ماہ 22دِن ہو چکے ہیں۔کیا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی حاصل کرنے کے لئے مزید 33سال 6ماہ اور 8دِن انتظار کرنا ہوگا؟ یا ایک ہزار سال تک؟۔
ستمبر1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران جناب ذوالفقار علی بھٹو نے وزیرِ خارجہ پاکستان کی حیثیت سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ”ہم (یعنی پاکستان کی حکومت اور عوام) آزادیءکشمیر کے لئے ایک ہزارسال تک جنگ لڑیں گے“۔ جنابِ بھٹو اپنے اِس ”نعرہ حق“ کے بعد پنجاب اور اہلِ پنجاب کے ہِیرو بن گئے اور”قائدِ عوام“لیکن اقتدار میں آکر وہ سب کُچھ بھُول گئے۔ وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے ادوار میںمسئلہ کشمیر کو چھُوا تک نہیں۔جناب آصف زرداری نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد کہا تھا کہ کیوں نہ مسئلہ کشمیر 30سال کے لئے منجمد کر دیا جائے“؟جنابِ زرداری 5سال تک اپنی اِس خواہش کی تکمیل میں رہے ۔اُن کے علاوہ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے غیر اعلان کئے اپنے اپنے دَور میں مسئلہ کشمیر کو منجمد ہی رکھا۔ اب بھی منجمد ہے۔ علّامہ اقبال ؒ نے کشمیر سے متعلق اپنی نظم میں کہا تھا:
”قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!“
شاعرِ سیاست حضرت علّامہ ؒ کے اِس مصرعے کی روشنی میں کہتے ہیں کہ۔۔
”شیروں کی طرح چار سُو، پھِرتے ہیں گوسفند
اب نوجوان ڈالیں سِتاروں پہ ،کیا کمند؟
ہوتا ہے ہر مہینے ہی”اعلانِ تاشقند“
”قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!“
مُجھے سابق وزیرِ اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کی بے بسی پر ترس آیا جب اُنہوں نے کہا کہ”خُدا کرے کہ حکومت اور طالبان کے مذاکرات کامیاب ہو جائیں اور جب قیدیوں کا تبادلہ ہو تو میرے بیٹے سیّد علی حیدر گیلانی کو بھی طالبان کی قید سے چھُڑا لِیا جائے!“جنابِ گیلانی کے اِس بیان سے بیٹے کے لئے اُن کی شفقت پدری جھلک رہی ہے۔ مجھے اس پر جنگِ آزادی (1857ئ) کے ایک ہِیرو۔”گوگیرہ“(ساہیوال) کے رائے احمد خان کھرل اوراُس دور میںانگریزوں کی خدمات انجام دے کر اُن سے انعام و اکرام حاصل کرنے والے ۔جناب یوسف رضا گیلانی کے جدِامجد سجادہ نشین درگاہ موسیٰ پاک شہید ملتانی پِیر مخدوم ولایت شاہ المعروف مخدوم شیخ عبدالقادر خامس گیلانی یاد آگئے۔
میرٹھ سے جنگِ آزادی کا آغاز ہُوا توراجپوتوں کی پنوار شاخ(کھرل) کے رائے احمد خان کھرل نے دریائے سُتلج سے دریائے راوی تک راجپوتوں کے بڑے قبائل فتیانہ، کاٹھیا اور وٹو کو ساتھ مِلا کر اور گو گیرہ کو ہیڈ کوارٹر بنا کر انگریز کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر دِیا۔8جولائی 1857ءکو پاک پتن کے ایک گاﺅں سِکھو کا سے جنگِ آزادی کا آغاز ہُوا جہاں کے جوئیہ (راجپوت)قبائل نے لگان دینے سے انکار کر دیا۔رائے احمد خان کھرل کے مجاہدوں نے پنجاب کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر لارڈ برکلے کو لاٹھیاں مار ما ر کر موت کے گھاٹ اُتار دِیا۔26جولائی 1857ءکو رائے احمد خان کھرل نے گوگیرہ جیل میں ہنگامہ کر دِیا۔قیدی پھاٹک توڑ کر جیل سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انگریزی فوج کی اندھا دھُند فائرنگ سے 40قیدی جاں بحق ہو گئے۔17ستمبر1857ءکو گوگیرہ سے بہت بڑی تحریک کا آغاز ہُوا۔گوگیرہ کے زمیندار رائے ساون خان اور اُن کا بیٹا رائے سادُو خان انگریزی فوج سے لڑتے ہُوئے شہید ہوئے۔پِیر مخدوم ولایت شاہ گیلانی نے اپنے مُریدوں کو بتایا کہ”مَیں نے مراقبہ کِیا تو پتہ چلا کہ انگریزوں کو فتح حاصل ہو گی“پھر اُن کے مُریدوں نے انگریزوں کا ساتھ دِیا۔
19ستمبر کو انگریز افسر کی کمان میں سکھ بٹالین گوگیرہ پہنچ گئی۔ اُس کے بعد مزید فوج آگئی۔انگریزی فوج نے رائے احمد خان کھرل اور اُن کے ساتھیوں کو جنگل میں محصُور کر دیا۔دونوں طرف سے خُون ریز جنگ ہُوئی۔ انگریزی فوج کے بہت سے سپاہی مارے گئے۔کمالیہ کا رائے سرفراز خان کھرل اور سکھ سردار ،دھاڑا سنگھ نہال سنگھ اور سمپورن سنگھ ۔بظاہر رائے احمد خان کھرل کے ساتھ تھے لیکن دراصل انگریزوں کے مُخبر۔ عین نماز کے وقت حالتِ سجدہ میں پنجابی مسلمانوں کے ہیرو رائے احمد خان کھرل کا سر تن سے جُدا کر کے اُنہیں شہید کر دِیا گیا۔شہید رائے احمد خان کھرل اور اُن کی گھوڑی”ساوی“ کے گِیتبیاہ شادی کے موقع پراب بھی پنجاب کے بہت سے دیہات میں گائے جاتے ہیں۔ نامور شاعر جناب فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ۔
”جِس دھج سے کوئی مقتل کوگیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں“
 مسئلہ کشمیر شاید اب پنجاب ( بلکہ پنجاب کے عوام) کا ہی رہ گیا ہے ۔ اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی” جسے متنازع بنا دِیا گیا ہے“ ۔کشمیری نژاد وزیرِاعظم میاں نواز شریف بھارت سے تجارت بڑھانے کے حق میں ہیں اور اُس وقت کے انتظار میں کہ جب ساری قوم خود بخو متفق ہو کرکالا باغ ڈیم تعمیر کے لئے اُٹھ کھڑی ہو ۔چاروں صوبوں کی اسمبلیوں نے تو اِس مسئلے کو ” کھو ہ کھاتے “ میں ڈال دِیا ہے ۔ شہید رائے احمد خان کھرل کے زمانے میں۔ مسئلہ کشمیر اور کالا باغ ڈیم کے مسائل نہیں تھے۔ پھر مجھے آج اُن کی یاد کیوں آرہی ہے؟ ۔
       

ای پیپر دی نیشن