اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے مظفرگڑھ میں چالیس سالہ خاتون سے اجتماعی زیادتی کے واقعہ پرازخود نوٹس کیس میں جمع کرائی گئی رپورٹ غیرتسلی بخش قراردیدی عدالت نے آئی جی پنجاب کو تحقیقات مکمل کر کے آئندہ سماعت پر دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیاہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی ہے، اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا ایف آئی آر کی کاپی اور خاتون کی میڈیکل رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہم نے آئی جی پنجاب سے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ مانگی تھی انہوں نے یہ رپورٹ کیوں نہیں دی۔ عظمت سعید نے کہا کیا آپ آئی جی کو ڈی پی او کہتے ہیں، عدالت نے آئی جی پنجاب کی عدالت میں پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا اس کیس میں نامزد دس میں سے نو افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے ایک ملزم فرار ہے۔ ملزمان کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے بھی لے لئے ہیں۔ تحقیقات جاری ہے، حتمی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دینگے۔ عدالت کا کہنا تھا آئی جی پنجاب سے رپورٹ مانگی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ کام ڈی پی او کو سونپ دیا۔ جمع کرائی گئی رپورٹ عدالتی احکامات کے مطابق نہیں، سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو واقعہ کی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت دس روز (سترہ فروری ) کیلئے ملتوی کر دی۔ اے پی پی کے مطابق سپریم کورٹ نے مظفر گڑھ اجتماعی زیادتی کیس میں ڈی پی او مظفرگڑھ کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کو اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا ایک ملزم نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی ہے۔ آن لائن کے مطابق جسٹس شیخ عظمت نے ڈی پی او مظفر گڑھ کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا عدالت نے آئی جی پنجاب کو طلب کیا تھا کیا پنجاب میں ڈی پی او ہی آئی جی کہلاتا ہے‘ آئی جی پنجاب اگلی سماعت پر خود پیش ہوں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہم نے تو آئی جی پنجاب سے کہا تھا وہ تحقیقات کر کے ابتدائی رپورٹ پیش کریں۔ انہوں نے خود یہ رپورٹ پیش کیوں نہیں کی۔ معلوم ہوتا ہے وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ کسی کی بھی اس معاملے میں سستی برداشت نہیں کریں گے۔ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد تو زمین پھٹ جاتی اور ملزموں کو اس میں دفن کر دیا جاتا۔ خالی گرفتاریوں سے کچھ نہیں ہو گا رپورٹ بھی مکمل نہیں۔ عدالت نے آئی جی کے پیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آئی جی نے جو کام خود کرنا تھا وہ ڈی پی او کو سونپ دیا گیا۔ عدالت نے سماعت 17 فروری تک ملتوی کرتے وقت آئی جی پنجاب کو جامع رپورٹ کیساتھ ذاتی طور پر طلب کیا ہے۔ اے پی اے کے مطابق عدالت نے کہا آئی جی پنجاب اگلی سماعت پر خود پیش ہوں۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ این این آئی+ آن لائن) سپریم کورٹ نے خضدار میں اجتماعی قبروں کے معاملے پر عدالتی کمشن کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ڈی سی او خضدار نے عدالت کو بتایا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کرلیا گیا ہے ٗ اجتماعی نعشوں کی ابتدائی رپورٹ 6 فروری کو ملے گی۔ چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اجتماعی قبروں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی تو داخلہ سیکرٹری بلوچستان اسد گیلانی اور ڈی سی خضدار عبدالوحید عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالتی استفسار پر ڈی سی خضدار عبدالوحید شاہ نے بتایا مقامی چرواہے کی اطلاع پر ضلعی انتظامیہ اور ایف سی اہلکار بتائی گئی جگہ پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا مٹی میں انسانی اعضاء نظر آرہے تھے اور وہاں کوے اور گدھ منڈلا رہے تھے، کھدائی کرانے پر 4 مختلف قبروں سے 13 افراد کی لاشیں ملیں جنہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خضدار منتقل کردیا گیا، جہاں یہ نعشیں موجود ہیں۔ ان کی شناخت کیلئے نمونے حاصل کرلئے گئے ہیں جن کی رپورٹ 6 فروری کو موصول ہوگی، اس کے علاوہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے لاپتہ افراد کے ورثا سے بھی رابطہ کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر خضدار نے بتایا پہلے دن دو لاشوں کی باقیات ملی تھیں، 5 نعشیں ایک قبر میں جبکہ باقی قبروں میں 2 ،2نعشیں تھیں۔ رپورٹ کے مطابق دو نعشوں کی شناخت آواران کے رہائشیوں قادر بخش اور نصیر احمد کے نام سے ہو چکی ہے اور ان کو قانونی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ بلوچستان اسد بلال نے عدالت عظمیٰ کو بتایا صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لئے ہائیکورٹ کے فاضل جج جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن تشکیل دیا ہے جو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کریگا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت کو جگہ کا نام بتائیں جہاں یہ قبریں واقع تھیں، ڈپٹی کمشنر نے کہا قبریں باغبانہ کے علاقے پوٹک میں پائی گئیں، عدالت نے کیس کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کر دی۔ آن لائن کے مطابق ڈی سی خضدار نے اجتماعی قبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ایک چرواہے نے نام نہ بتانے کی شرط پر قبروں کی نشاندہی کی‘ مجموعی طور پر 4 قبروں سے 13 نعشیں برآمد ہوئی ہیں۔ حتمی رپورٹ ملنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا یہ لاپتہ افراد تو نہیں تھے۔ عدالت کو بتایا گیا اجتماعی قبریں باغبانہ‘ جندل اور دیگر علاقوں میں تھیں۔ عدالت نے بلوچستان حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی اور ہدایت کی کمشن اور ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹس عدالت میں پیش کی جائیں۔