امرکی صدر براک اوباما کا اپنے دور حکومت میں دوسری مرتبہ بھارت یاترا۔ اور وہ بھی کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ کی ناپسندیدہ شخصیت جس کو امریکی حکام نے کئی مرتبہ ویزا جاری کرنے سے اس لئے انکار کیا۔ کہ وہ اپنی وزارت اعلیٰ کے دورے میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قاتل ہے۔ مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا۔ عیسائیوں اور چھوٹی ذات کے ہندوﺅں کو بھی نہ بخشا۔
گجرات، آسام اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کو ان کے گھروں میں بند کر کے زندہ جلایا گیا۔ ان کی نسل کشی کی اور یہ اعلان کروایا کہ ہندوستان میں ہندو بن کر رہنا پڑے گا ورنہ پاکستان چلے جاﺅ۔ یادر ہے کہ بھارت میں تقریباً تیس کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ بھارت مسلمانوں کے نام پر عرب ممالک سے مراعات حاصل کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کی وجہ سے ہی عرب، مشرقی وسطی وغیرہ میں سالانہ اربوں ڈالروں کی تجارت کرتا ہے۔
68 سالوں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودار ادیت دینے کی بجائے ان کا قتل عام کر رہا ہے۔ آٹھ لاکھ کے قریب قابض بھارتی فوج اب تک تقریباً پانچ لاکھ سے زائد معصوم انسانوں کو قتل اور ان کی اربوں کھربوں روپوں کی املاک کو نذر آتش کر چکی ہے اور یہ نہ رکنے والا کھیل اب تک جاری ہے۔
جب ا مریکی صدر بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شامل تھے تو پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری بھارت کے خلاف یوم سیاہ منا رہے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، او آئی سی اور خود اقوام متحدہ نے بھی اس بربریت پر کئی مرتبہ شدید احتجاج کیا اس کے باوجود دنیا کی سپر طاقت اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویدار امریکہ اپنے مفادات کی خاطر سب کچھ نظر انداز کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکہ ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہ رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ کئی معاہدوں میں ہمارا حلیف ہے اس کے باوجود اس نے ہمیشہ حریف کا کردار ادا کیا۔
1962ءکی چین بھارت جنگ میں پاکستان کو وارننگ دی کہ اس وقت بھارت مشکل میں ہے۔ لہٰذا کوئی محاذ نہ کھولا جائے۔ جبکہ بھارت اس کا اتحادی بھی نہ تھا بلکہ روس کا اتحادی تھا اور اس نے ہی بھارت کو ایٹمی قوت بنایا تھا۔
1971ءمیں بھارت نے کھلی جارحیت کرتے ہوئے اگر تلہ سازش تیار کی اور پاکستان کے باغیوں کو اپنے ملک میں تربیت دی۔ اور بھاری اسلحہ اور بارود فراہم کیا۔ جب شورش کامیاب ہوئی تو ان کی مدد کیلئے اپنی فوج مشرقی پاکستان میں داخل کر دی۔
ہمارے حلیف امریکہ نے اعلان کیا کہ میرا چھٹا بحری بیڑہ امن قائم کرنے کیلئے ڈھاکہ روانہ ہوگیا ہے۔ 44 سال گزرنے کے باوجود چھٹا بحری بیڑا ڈھاکہ ساحل تک نہ پہنچ سکا۔ بھارت کو ایٹمی دھماکوں کی کھلی چھٹی دی اور جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے تو اس پر پابندی عائد کر دیں۔
بھارت کا ہمسائیہ ممالک کے ساتھ ہمیشہ پنگا رہاہے۔ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی خاطر پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی بھر پور مدد کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ جارحیت کی اور منہ کی کھانی پڑی۔ سری لنکا میں 27 سال تک باغیوں کی مدد کی۔ نیپال ہو یا بھوٹان کسی کو نہ بخشا اس کے باوجود امریکہ نے سلامتی کونسل کو مستقل نشست کیلئے بھارت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جس سے صاف عیاں ہے کہ اسلامی بلاک میں امریکہ سب سے زیادہ پاکستان سے خائف ہے۔ کیونکہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہے، بڑی فوج رکھتا ہے اور پاکستان اپنے جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔
چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سپر پاور ہونے کے ساتھ ساتھ تیزی سے اقتصادی ترقی کر رہا ہے بلکہ کئی شعبوں میں امریکہ اور یورپی برادری کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور کئی ممالک چین کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ امریکہ ایک بار پھر بھارت کو چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس پر نوازشات کی بارش کر رہا ہے۔ ملکوں کے درمیان تعلقات کا بنیادی نقطہ باہمی مفادات ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔
امریکی صدر کے دورہ بھارت پر واویلہ کرنے کی بجائے اپنی گھر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہمسایوں کو سازش کا موقع نہ مل سکے۔ سوائے دوسیاسی جماعتوں کے حکومت، اپوزیشن اور افواج پاکستان ملکر ایک قومی ایکشن پلان تیار کیاہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مصلحت اور مجبوری سے نکل کر فوری عمل درآمد کیا جانا چاہئے تاکہ دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت جیسی لعنت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کیا جاسکے۔ توانائی کے بحران کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
پاکستان کی عوام محب وطن بھی ہے اور انتہائی ذہین بھی انکے اعتماد کو بحال کیا جانا بہت ضروری ہے۔ سیاسی، مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی بلکہ ہر مکتبہ فکر کو برداشت اور درگذر کی پالیسی اپنانی ہوگی۔
٭....٭....٭