یوم یکجہتی کشمیر اور اجیت کمار دوول

Feb 05, 2015

اعظم ملک

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار دوول کی حالیہ بریفنگ کے منظرِ عام آنے پر وہ تمام خدشات درست ثابت ہوئے جن کا اظہار نریندر مودی کے وزیر اعظم ہندوستان بننے پر ہوا تھا۔ ساتھ ساتھ تلخ یادوں اور پرانے زخموں کے ہرا ہونے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔
بابائے صحافت جناب مجید نظامی صاحب ہمیشہ نظریہ پاکستان کے محافظ کے طور پرقوم کی رہنمائی کرتے رہے وہ ہمیشہ ہندوستان سرکار کے Mind Set سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ ہندو ذہنیت سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے ہمیشہ قومی وقار، خوداری اور قومی سلامتی کو ترجیح دینے کی تلقین کرتے تھے۔ کچھ سیاستدان جنہوں نے راجیوگاندھی کی پاکستان آمد پر کشمیر کا بورڈ کشمیر ہاﺅس سے اُتار دیا تھا اُن کو امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے لیکن ایک بار پھر وقت نے ثابت کیا کہ کوئی بھارتی حکومت ہو پاکستان کی حقیقت کو درپردہ ہمیشہ تسلیم کرنے سے انکار کیا اورنقصان پہنچانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ نریندر مودی کا اصل چہرہ اجیت کمار دوول سابق بھارتی انٹیلی جنس بیورو کا ڈائریکٹر جنرل جو ایک سابق پولیس آفیسر اور جاسوس ہے جو سات سال پاکستان میں جاسوس کی حیثیت سے رہا۔ جس کی سابقہ زندگی پاکستان اور اسلام دشمنی سے بھری پڑی ہے۔ 90کی دہائی میں درگاہ حضرت بَل کے واقعہ نے دوول کو انڈین اسٹیبلشمنٹ میں ممتاز کردیا ۔ 1995 ءمیں غیرملکی سیاحوں کو اغواءکرنے کا پلان بنایا تاکہ مسلح دہشت گردی کاآغاز کیا جاسکے۔
نریندر مودی کی سوچوں کو عملی جامہ پہنانے والے اجیت کمار دوول ہی گجرات میں مسلم کُش فسادات کا سکرپٹ لکھنے والا تھا۔ اجیت کمار دوول نے راجن ترپاٹھی ، رامن الوک اور امیتابھ کے ساتھ مل کر گٹھ جوڑ کیا اور چھوٹاراجن نامی گینگ بنایا تاکہ علاقائی آپریشن کئے جاسکیںاور اب بحیثیت مشیر قومی سلامتی انڈیا بننے کے بعد اس کی بریفنگ سے پاکستان کے اندورنی و بیرونی خطرات واضح ہوگئے ہیں ۔ اجیت کمار کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کیسے مقابلہ کیا جائے ۔ ہم ان کا مقابلہ تین طریقوں سے کرتے ہیں پہلا دفاعی ، دوسرا جارحانہ دفاعی جس میں جہاں سے خطرہ ہو وہاں پر جاکر کارروائیاں کرنا اور تیسرا جارحانہ ہے جس میں تمام حدیں پار ہوجاتیں ہیں ہم جارحانہ دفاعی انداز اختیار کریں گے۔ ایٹمی حدود جارحانہ طریقے میں مسئلہ پیدا کرتی ہیں لیکن جارحانہ دفاع میں نہیں۔ ہم جارحانہ دفاع سے کام لیتے ہیں جس میں پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں یہ پاکستان کی اکانومی ہوسکتی ہے، یہ پاکستان کی اندرونی سکیورٹی اور سیاست کو مشکل بنانا ہو سکتا ہے ، پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی ہو سکتی ہے یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کی پالیسی کو شکست دینا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم جارحانہ دفاع کریں تو دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کا توازن کدھر ہے پاکستان کی کمزوری بھارت سے زیادہ ہے۔ جب وہ جانیں گے کہ بھارت نے جارحانہ دفاع شروع کر دیا ہے تو یہ ان کے لئے مہنگا ہو جائے گا۔ اگر تم ایک ممبئی کرو گے تو بلوچستان سے ہاتھ کھو بیٹھو گے۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ دہشت گردوں کو کس طرح روکیں۔ ان کی تین چیزیں روک دو جن کو میں آکسیجن کہتا ہوں۔ ان کا اسلحہ روک دو ان کی نفری روک دو ان کے فنڈز روک دو ۔
دہشت گردوں کو زیادہ قیمت دے کر انہیں اپنی سائیڈ پر کرلو تو یہ سب آپ کی طر ف آجاتے ہیں۔ یہ کرائے کے لوگ ہیں یہ کس چیز کے لئے لڑ رہیں ہیں؟ صر ف اس لئے کہ ان کے پاس کوئی نوکری نہیں ان کو گمراہ کیا گیاہے۔ آپ ان کو میچ کریں بس خفیہ طریقے سے بات یہیں نہیں ختم ہوتی بین الاقوامی میڈیا اجیت کمار دوول کو ایک نیا عالمی دہشت گرد کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ چیک ہیگل سیکریٹری ڈیفنس امریکہ نے کہا کہ بھارت نے کچھ عرصہ سے افغانستان کو استعمال کیا ہے ۔ دوسرے محاذ کے طور پر بھارت نے کچھ سالوں سے ان مسائل میں سرمایہ کاری کی ہے جو پاکستان کے دوسرے بارڈر کی طرف ہیں اور آپ اس کے کئی پہلو نکال سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی پھیلانے والا اجیت کمار یہ شخص ایک ایسے خِطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے جس میں دنیا کی 3بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دُنیا میں دہشت گرد تنظیمیں بنانا مُشکل کام ہے۔ لیکن اجیت کمار کے لئے نہیں یہ آدمی ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو دوبارہ اُبھارنے کا پلان بنا رہا ہے ۔ ان حالات میں کیا پاکستانی حکمرانوں کو زیب دیتا ہے کہ جو ہمارے ملک میں کفن بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں ہم اُنکو تحفے میں ساڑھیاں بھیجیں۔ ہے کوئی اس ملک میں ایسا وزیر دفاع جو ہمارے بارڈر پر وحشیانہ فائرنگ کر کے بچوں کو شہیدکرنے پر انکے گھروں پر جا کر فاتحہ خوانی ہی کر سکے ۔ ہمارے ان سیاستدانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں جو بھارت میں جاکر نظریہ پاکستان کی مخالفت میں بیان دیتے ہیں اور اسکی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ہے اس ملک کا وزیر خارجہ جو کم از کم بھارتی جارحیت کیخلاف اقوام عالم میں اپنا کیس پیش کر سکے۔ ہمیں امن چاہیے لیکن ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی قیمت پر نہیں ۔

مزیدخبریں