اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں غیرملکی سفارتخانوں اور دیگر بااثر اداروں کی جانب سے سکیورٹی کے نام پر سڑکیں گلیاں بلاک کرنے، رہائشی علاقوں کے کمرشل استعمال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے سے رکاوٹیں ہٹانے سے متعلق لائحہ عمل اور ٹائم فریم طلب کر لیا ہے۔ کیس کی سماعت 9 فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ سی ڈی اے نے تجاوزات کی کھلی چھوٹ دیکر آنکھیں بند کرلی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد صرف مراعات یافتہ طبقہ کے لئے ہی بنایا گیا ہے جس میںکسی غریب اور نچلے طبقہ کو سانس لینے کا بھی حق حاصل نہیں، غیر ملکی سفارتخانے جو کچھ ہمارے ملک میں کررہے ہیں کیا بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کو ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ اگر غیر ملکی سفارتخانوں کو شروع ہی میں روک دیا جاتا تو آج صورتحال یہ نہ ہوتی، یہ سب سی ڈی ا ے حکام کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ہوا جنہوں نے قانون لاگو کرنے میں ہمیشہ تخصیص سے کام لیا جس سے محکمہ کمزور سے کمزور ہوتا گیا، سب کام دھونس اور دھاندلی سے ہو رہے ہیں، ہر ایک کے لئے الگ قانون ہے، امیر اور غریب کا قانون الگ ہے، عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ملک میں قانون موجود ہے، اب اس ملک میں صرف اور صرف قانون کی بالادستی ہو گی، کسی کی مرضی نہیں چلے گی، عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لئے آئین کے آرٹیکل 190کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سفارتخانوں، حساس اداروں اور پولیس کی جانب سے گلیوں اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور رہائشی علاقوں میں جاری کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین سی ڈی اے معروف افضل اور سی ڈی اے کے وکیل حافظ ایس اے رحمان پیش ہوئے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیئرمین سی ڈی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سفارتخانوں سے رجوع کرکے انہیں غیر قانونی طور پر قائم کی گئی رکاوٹیں ہٹانے کی ہدایت کریں۔ انہوں نے عدالت سے کچھ مہلت دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیا رکیا کہ سی ڈی اے کو براہ راست سفارتخانوں کو نوٹس جاری کرنے کا اختیار نہیں، وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے سفارتخانوں کو نوٹسز جاری کئے جا سکیں گے، سفارتخانوں کی ڈپلومیٹک انکلیو میں منتقلی کے لئے بھی سفارتخانوں کو مناسب وقت دینے کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر 216 رکاوٹیں موجود ہیں، رہائشی علاقوں میں 2 ہزار سے زائد کاروباری ادارے موجود ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ انہوں نے رہائشی علاقوں میں جاری کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے سے متعلق کہا کہ سی ڈی اے اسلام آباد کے نئے سیکٹرز میں کاروباری مقاصد کیلئے زیادہ جگہ مختص کر رہا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے طبقاتی فرق کے حوالے سے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک سویڈش سفارتکار اپنے ملک واپس گیا اور ایک صحافی کی جانب سے ایک سوال پر اس نے جواب دیا تھا کہ اسلام آباد بہت خوبصورت شہر ہے۔ یہ پاکستان سے صرف 20 منٹ کی مسافت پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاقانونیت اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے، جب ملک کا بااثر طبقہ دھونس دھاندلی، غیرقانونی طریقے، رشوت، چور راستے اختیار کرے گا تو ہم دیگر ملک کے لوگوں کو روک کر قانون پر عمل درآمد کیلئے کیسے کہہ سکتے ہیں مگر اب ایسا نہیں چلے گا۔ عدالتی حکم پر عملدرآمد کیلئے آئین کا آرٹیکل 190 موجود ہے جس کے تحت حکومت سمیت ملک کا ہر ادارہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیئرمین کو ایک خط دیتے ہوئے باآواز بلند پڑھنے کی ہدایت کی تو حافظ ایس اے رحمان نے استدعا کی کہ اسے اونچی آواز میں نہ پڑھا جائے جس پر جسٹس جواد نے چیئرمین کو اس کا مطالعہ کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ یہ خط کسی سفارتخانے کے قریب رہائش پذیر کسی نوجوان نے لکھا ہے جو یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کچھ نہیں کرتی بلکہ صرف تاریخیں دے دیتی ہے، بااثر طبقہ کے آگے بے بس ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں چیئرمین سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ رکاوٹیں ہٹانے کے لئے وقت کے تعین کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل کریں اور تجاوزات کی کیٹیگریز بنا کر عدالت کو بتایا جائے کہ انہیں ہٹانے میں کتنا وقت لگے گا۔ عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو آئندہ سماعت پر اس حوالہ سے عملدرآمد کے لئے ٹائم فریم پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے رہائشی علاقوں، سفارتخانوں کی سکیورٹی کے نام پر تجاوزات اور رکاوٹیں ہٹانے کیلئے 9 فروری تک ٹائم فریم مانگتے ہوئے غیرملکی سفارتخانوں کو رکاوٹیں ہٹانے کیلئے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ این این آئی کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ رکاوٹیں ہٹانے کیلئے وقت کے تعین کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل بتائیں، شہر کے فٹ پاتھوں پر قائم تمام تجاوزات ہٹائی جائیں اور تجاوزات کی کیٹیگریز بنا کر عدالت کو بتایا جائے انہیں ہٹانے میں کتنا وقت لگے گا؟ جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ سفارتخانوں کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت کس نے دی ہیں، سفارتخانے ڈپلومیٹک انکلیو میں کیوں منتقل نہیں ہوئے؟ کیا دوسرے ممالک میں قائم سفارتحانوں کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت ہے، کیا ہم محکوم قوم ہیں۔ لگتا ہے اسلام آباد ہم جیسے مراعات یافتہ لوگوں کیلئے بنا ہے نچلے طبقوںکو شاید یہ حق نہیں کہ یہاں سانس لے سکیں۔ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ 216 رکاوٹوں کو مرحلہ وارختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، سفارتخانوں سمیت تجاوزات قائم کرنے والوں کو آج ہی 15 دن کے نوٹس جاری کر دینگے۔