اردو کے نامور ادیب، افسانہ نگار اور کالم نویس انتظار حسین 92 سال کی عُمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اہل ادب کو سوگوار کر گئے۔ میری انتظار بھائی سے ٹیلی فون پر آخری بار بات 6 اپریل 2015ء کو ہُوئی۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ ’’اثر چوہان! اب تُم کافی بڑے ہوگئے ہو۔ اب تو شرارتیں چھوڑ دو!‘‘ مَیں نے کہا ’’انتظار بھائی! شرارتوں کا بڑے ہونے سے تعلق نہیں ہوتا۔‘‘ پھر ادھر اُدھر کی باتیں ہُوئیں اور بس! ہُوا یُوں کہ 3 اپریل کو روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شاعرہ اور ادیبہ کِشور ناہید کا کالم ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اردو ادب کے مہادیو‘‘ کے عنوان سے شائع ہُوا۔ مَیں نے 6 اپریل کے ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’کِشور ناہید کا مہادیو‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لِکھا کہ مہادیو ہندوئوں کے تباہی و بربادی کے دیوتا ’’شِوا‘‘ کا صفاتی نام ہے جِس سے خوفزدہ ہندو قوم اُس کے آلۂ تناسل (شِولنگ) کی پُوجا کرتی ہے ۔ گوپی چند تو محبّت کے دیوتا ’’وِشنُو‘‘ کا صفاتی نام ہے۔ افسوس کہ کِشور ناہید نے ’’ہندو دیو مالا‘‘ کا ادراک رکھنے والے انتظار حسین کی صُحبت سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا۔
مَیں نے اور سعادت خیالی (مرحوم) نے 17 اکتوبر سے 4 نومبر 1973ء تک انتظار بھائی کی قیادت میں جمہوریہ ترکیہ کا دَور کِیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی نے ہمیں بھجوایا تھا۔ انتظار بھائی کے ساتھ مجھے اور سعادت خیالی کو ترکیہ کو آزادانہ طور پر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مِلا۔ تُرکیہ کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر جنرل جناب مُطلو گُل ہماری دیکھ بھال پر مامور تھے۔ ہم نے استنبول سے انقرہ تک کا دو طرفہ سفر ’’ٹرکش ائر لائنز‘‘ پر اور سرکاری گاڑیوں، پرائیویٹ ٹیکسیوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور پیدل گھوم پھر کر کِیا۔
سعادت خیالی میرا پرانا اور بے تکلف دوست تھا لیکن انتظار بھائی کے ساتھ وضع داری تھی۔ وہ مجھ سے عُمر میں 13 سال بڑے تھے۔ ’’اتا تُرک ‘‘ غازی مصطفیٰ کمال کے مزار پر حاضری اور ہجرت کے بعد مدینہ منّورہ میں نبی کریمؐ کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کی زیارت کے بعد دوسرا بڑا واقعہ استنبول کے ’’توپ کاپی میوزیم‘‘ میں رسول اکرمؐ اور خُلفائے راشدہؓ کے تبرکات (زیرِ استعمال اشیائ) کی زیارت تھی۔
ہم نے دندانے دار اور دو دھاری تلوار ’’ذوالفقار‘‘ کی بھی زیارت کی۔ جو غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے طور پر مِلی تھی۔ ’’ذوالفقار‘‘ پہلے پیغمبر انقلابؐ کے زیر استعمال رہی پھر آنحضرتؐ نے اُسے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو دے دیا تو اُس کا نام ’’ذوالفقار علیؓ ‘‘ پڑ گیا۔
ہم ہوٹل کے پُرتکلف کھانے اور سرکاری مہمان نوازی سے بور ہو جاتے تو ’’تقسیم‘‘ کے علاقے میں بہت ہی نفیس روٹیوں میں لپیٹے گئے "Donar" کباب کھاتے۔ وہاں گوالمنڈی لاہور کی مچھلی اور کبابوں کی دُکانوں کا سا ماحول تھا۔ سعادت خیالی خالصتاً ’’لہوری‘‘ تھا، ہر بات میں بہت ہی بے تکلفی کا مظاہرہ کرتا تھا۔ انتظار بھائی کبھی کبھی اُسے ٹوکتے بھی لیکن وہ باز نہ آتا۔ ایک دِن ہم باغ میں گھاس پر بیٹھے تُرک بچوں کو کھیلتے دیکھ رہے تھے تو مَیں نے کہا کہ ’’انتظار بھائی! مَیں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہُوں۔ پوچھا ’’شکریہ کِس بات کا؟‘‘ مَیں نے کہا کہ آپ ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور کے ایڈیٹر تھے۔ مَیں نے سرگودھا سے اپنی ایک غزل بذریعہ ڈاک آپ کے نام بھجوائی تو آپ نے اُسے دسمبر 1964ء کے شمارے میں شائع کر دیا تھا۔ انتظار بھائی کا چہرہ مسکراہٹ سے روشن ہوگیا اور وہ بولے ’’ارے! اتنی جلدی شکریہ ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ 12 سال پُورے ہو جاتے تو کیا میرا شکریہ ادا کرنا زیادہ مناسب نہیں تھا؟‘‘
ایک دِن انتظار بھائی اپنی کتابوں کا ایک سیٹ لے کر کسی تُرک ادیب سے مِلنے چلے گئے۔ مَیں اور سعادت خیالی پیدل گھومنے پھرنے کے لئے نکل گئے۔ اچانک سعادت نے ایک ٹیکسی روکی اور ڈرائیور سے کوئی بات کی، پھر مجھ سے ٹیکسی میں بیٹھنے کو کہا۔ کچھ دیر بعد ہم غازی مصطفیٰ کمال پاشا کے دستِ راست اور سابق صدر/ وزیراعظم جمہوریہ تُرکیہ جناب عِصمت انونو کے گھر کے دروازے پر تھے۔ عِصمت انونو اُن دنوں بیمار تھے۔ محافظوں نے ہمیں "Visiter`s Book" پر اپنے تاثرات لِکھنے کو کہا۔ پھر اچانک سعادت خیالی نے ایک محافظ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور اُس کی مِنت خوشامد کرتے ہُوئے بولا کہ ’’ہمیں جناب عِصمت انونو کی زیارت کی اجازت دے دیں۔‘‘ محافظ کو ترس آ گیا۔ وہ ہم دونوں کو جناب عصمت انونو کے کمرے میں لے گیا۔ انہوں نے ہاتھ ہلا کر ہمارا خیر مقدم کِیا اور پاکستان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کِیا۔
شام کو انتظار بھائی سے ملاقات ہُوئی تو سعادت خیالی نے اُن سے جناب انونو سے ہماری لمبی چوڑی ملاقات کی تفصیل بیان کی (مجھے خیالی نے خاموش رہنے کا حُکم دِیا تھا) ہم وطن واپس پہنچ گئے۔ 25 دسمبر 1973ء کو جناب عِصمت انونو کا انتقال ہُوا تو خیالی نے روزنامہ ’’جمہور‘‘ میں جناب انونو سے ملاقات پر بھرپور کالم لِکھ دیا۔ مَیں یہ جرأت نہیں کر سکا۔ تُرکیہ میں پاکستان کے سفیر جناب انور مراد نے ہمیں انقرہ بلوایا۔ انقرہ کے سفارتخانے میں پریس قونصلر دِین محمد جو "Mr Dean" کہلاتے تھے ہمیں پریس کلب لے گئے۔ انتظار بھائی نے وہاں قائداعظم کا تذکرہ کِیا تو صدر پریس کلب نے پوچھا "Who is Quaid-e-azam?" مَیںنے کہا "Quaid-e-azam is Ata Pakistan" پھر مَیں نے "Mr Dean" سے کہا ۔ وڑ جانی دیا! تُوں ایتھے قائداعظم دے بارے کیوں نئیں دسّیا؟
واپسی پر انتظار بھائی نے مجھ سے کہا۔ اثر چوہان! تم نے مِسٹر ڈین سے کیا کہا تھا؟ مَیں نے کہا کہ مَیں نے اُس سے بے تکلفی کا مظاہرہ کِیا تھا۔ انتظار بھائی نے کہا کہ ’’لیکن تُم تو بہت طیش میں تھے؟‘‘ سعادت خیالی نے کہا۔ انتظار بھائی! ’’بے تکلفی کے اظہار کے لئے ہم پنجابیوںکا یہی سٹائل ہے۔‘‘ وطن واپس پہنچے تو لاہور روانگی سے پہلے مولانا کوثر نیازی ہمارے ہوٹل میں آ گئے اور کہا کہ ’’انقرہ سے پریس قونصلر نے رپورٹ بھجوائی ہے کہ آپ لوگوں نے پریس کلب میں غُل غپاڑا کِیا تھا؟‘‘ انتظار بھائی نے کہا ’’مولانا صاحب! آپ کا پریس قونصلر جھوٹ بولتا ہے۔ ہم بھلا وہاں غُل غپاڑا کیوں کرتے؟‘‘ اُس کے بعد مجھے اور خیالی کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
دَورۂ تُرکیہ کے بعد میری انتظار بھائی کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں ہُوئیں۔ اسلام آباد میں صدر پاکستان / وزیراعظم کی پریس بریفنگ میں کئی وفاقی وُزرائ، وزارتِ اطلاعات و نشریات کے سیکرٹریز اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے دفاتر میں، برطانیہ میں نظریۂ پاکستان فورم کے صدر، گلاسگو کے ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کی طرف سے انتظار بھائی کے اعزاز میں لاہور میں منعقدہ تقاریب میں لیکن میری اُن سے سب سے زیادہ ملاقاتیں جیل روڈ لاہور پر ہمارے مشترکہ دوست، سابق بنکر اور ماہر تعلیمات سیّد یوسف جعفری کے گھر پر ہُوئیں لیکن جب کہیں اور جب کبھی میری انتظار بھائی سے ملاقات ہوتی تو وہ 19 دِن کے دورۂ تُرکیہ کے دوران سعادت خیالی (مرحوم) اور میری شرارتوں کا ذکر ضرور کرتے اور مَیں اُن کی معصومیت کا۔ انتظار بھائی کے انتقال کے بعد مَیں کیا کروں؟…
’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے؟‘‘
انتظار حسین کے ساتھ دَورۂ تُرکیہ!
Feb 05, 2016