یکجہتی کشمیر ،ظلم پھر ظلم ہے

ہم ہر سال 5فروری کو یوم کشمیر مناتے ہیں۔ مظلوم کشمیری ہر روز اپنے جوان بچوںکی لاشیں اٹھاتے ہیں۔ درندہ صفت ہندوستانی فوجی فتح کا جشن مناتے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیر دھرتی کو ماں کہا تھا۔ آج وہ زندہ ہوتا تو دیکھتا کہ اسکی اپنی فوج نے کیا حشر پبا کر رکھا ہے۔ بے گناہ اور نہتے کشمیریوں کو گولیوں سے بھونا جا رہا ہے۔ ظلم اور بربریت کا بازار گرم ہے۔ چار سُو انسانی خون بکھرا ہوا ہے۔ چاروں اور بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے، کھیت کھلیان بستیاں اور مکان مساجد اور مزار کچھ بھی اپنی اصل حالت میں نہیں ہے۔ نریندر مودی ایک متعصب نسل پرست ہندو ہے۔ ایک وقت تھا کہ مہذب دنیا نے اس کا داخلہ بند کر رکھا تھا۔ کشمیر میں ہر ہندو سپاہی نریندر مودی بنا ہوا ہے۔ مودی محض ایک فرد نہیں ہے ایک سوچ کا نام ہے، ایک نظریہ ہے، مکتب فکر ہے۔ اگر یہ کچھ برس اور حکومت میں رہ گیا تو لوگ چنگیز خان، ہلاکو اور روم کے نیرو کے مظالم بھول جائیں گے۔
کشمیر کا مسئلہ اسی روز کھڑا ہو گیا تھا جس دن پاک و ہند آزاد ہوئے تھے۔ یہ محض اتفاق نہ تھا بلکہ ایک گہری سوچ ، منظم سازش اور ہندو انگریز گٹھ جوڑ کا شاخسانہ تھا۔ انگریز بوجوہ مسلمانوں کا مخالف تھا۔ ایک تو اس نے اقتدار ان سے ہتھیایا تھا اور دوسرا1857ءکی جنگ آزادی بھی بنیادی طور پر انہوں نے لڑی تھی۔ ہندو ہزار سال کی غلامی کا حساب چکانے کےلئے سازشوں کے سنہری جال بن رہا تھا۔ آخری انگریز وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کا جھکاﺅ ہندوﺅں کی طرف تھا۔ اس سے بھی زیادہ لیڈی ماﺅنٹ بیٹن ہزار جان سے گئی تھی۔ اس کی وجوہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے۔ پہلے تو ہر دو نے کوشش کی کہ ملک تقسیم نہ ہونے پائے۔ جمہوریت میں چونکہ سرگنے جاتے ہیں اس لئے ہندو مسلمانوں کو اکثریت کے جہنم زار میں دھکیلنا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے مسلمانوں کو محمد علی جناح کی صورت میں ایسا لیڈر ملا تھا جس نے ہر دو کا ذہن ٹھیک طرح سے پڑھا تھا اور ان کی ہر چال سمجھتا تھا۔ جب یہ بات ظاہر ہو گئی کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہے تو انہوں نے پلان Bپر عمل کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کو ایک ایسا ” لولا لنگڑا“ پاکستان دیا جائے جو معاشی طور پر کمزور ہو، جغرافیائی اعتبار سے غیر مستحکم ہو۔ بڑی سوچ بچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ من جملہ مقاصد صرف ایک ہی صورت میں پورے ہو سکتے ہیںاگر پاکستان کو شہ رگ کشمیر کو ہتھیا لیا جائے چنانچہ ریڈ کلف ایوارڈ میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ گورداسپور مسلم اکثریت کے باوجود ہندوستان کو دے دیا جائے۔ ریڈ کلف انگلستان کا ایک درمیانے درجے کا وکیل تھا جو کچھ صبح کو کماتا، شام کو خرچ ہو جاتا۔ ہندوستان میں کروڑوں روپے کی چمک دمک اور رمق نے اسکی آنکھوں کوخیرہ کر دیا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے اسکو وائس ریگل لاج میں رکھا اور ضروری ہدایات دیں، اس نے لارڈ کلائیو اور دیگر کمپنی کے ڈائریکٹرز کے قصے سن رکھے تھے جو سنہری چڑیا” کے پر نوچ کر انگلستان لے گئے تھے۔ وہاں انکے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر انگریز انہیں ”نباب صاحب “کہتے۔
تقسیم کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ ریاستیں جس ملک کےساتھ چاہیں الحاق کر سکتی ہیں۔ ریاست سے مراد اسکی آبادی نہیں بلکہ حکمران تھا۔ یہ (AMBIGUITY) جان بوجھ کر پیدا کی گئی تھی۔ بالفرض ایک ریاست کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اور حکمران ہندو تو ایک فرد واحد کو یہ اختیار دیا جا سکتا تھا کہ وہ تن تنہا قوم کے مستقبل کا فیصلہ کر دے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ سرحد کی طرح اس قسم کی ریاستوں میں بھی تقسیم سے قبل رائے شماری کروا لی جاتی۔ حیدر آباد دکن کا حکمران مسلمان تھا۔ آبادی میں ہندو زیادہ تھے۔ ہندوستان نے نظام کی مرضی کے بغیر اسے ضم کر لیا۔ کشمیر میں یہ مدقوق منطق اختیار کی کہ ہندو حکمران ہری سنگھ ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ چاہتا تھا۔ منافقت اور دو غلا پن کی اس سے بد تر مثال نہیں ملتی۔گو کشمیر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ ہند ہے۔ چار ہزار سال پرانی تاریخ ”راج ترنگنی “میں درج ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک کالم میں تفصیل بیان نہیں ہو سکتی۔ کشمیریوں نے مذہب اسلام کیسے قبول کیا ۔ یہ حصہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی ! ہندوستان میں اب کروڑوں کی تعداد میںمسلمان بستے ہیں۔ لوگ ریاستی جبر یا کسی ترغیب و تحریص کی وجہ سے اسلام کے دائرے میں نہ آئے تھے۔ یہ علمائے دین کا حسن اخلاق اور مذہب حقہ کی کشش تھی جو انہیں کشاں کشاں صراط مستقیم پر لے آئی تھی۔
16مارچ 1846ءکو معاہدہ امرتسر کی رو سے انگریزوں نے 75لاکھ نانک شاہی روپیہ میں کشمیر کو ایک ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں بیچ دیا۔ اس وقت ریاست 84471مربع میل پر محیط تھی۔ گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد اسکے بیٹے رنبیر سنگھ نے چارج سنبھالا۔ چونکہ دونوں باپ بیٹا ان پڑھ تھے اس لئے ولی عہد پر تاپ سنگھ کیلئے اتالیق مقررکیا گیا۔ پرتاب سنگھ گو زیادہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکا لیکن کرکٹ کے میدان میں اس کی بیٹنگ کے جوہر کھلے۔ اسکی بنیادی وجہ SKILLS نہ تھے بلکہ ایمپائرنگ تھی۔ تقسیم کے بعد مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کی انگیخت پر ریاست کے لوگوں کی رائے کے بر خلاف ہندوستان سے الحاق کر لیا۔ ریاست کے لوگوں کے اصرار پر جب پاکستان نے راست اقدام کیا تو ہندوستانی فوجیں مجاہدین کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ ہندو نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وعدہ کیا وہ کشمیر میں رائے شماری کرائے گا۔ اسی سلسلے میں سکیورٹی کونسل نے ایک قرار داد بھی منظور کی۔ پنڈت جی اپنی کہہ مکرانیوں کیلئے مشہور تھے۔ اس وعدے سے بھی پھر کی کی طرح پھر گئے۔
آج سارا کشمیر مجسم احتجاج ہے چار سو پاکستانی پرچم لہرارہا ہے ۔ مقبوضہ بھارتی فوج نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بایں ہمہ کشمیر آزاد ہو کر رہے گا، یہی تاریخ کا سبق ہے ہندوستان میں علیحدگی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں، انڈیا روس سے بڑا ملک نہیں ہے اگر رشیا کے حصے بخرے ہو سکتے ہیں تو ہندوستان بھی شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن