بدلتے ہوئے حالات میں یکجہتی کے تقاضے

5فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر پہلی مرتبہ 1990ءمیں محترم قاضی حسین احمد مرحوم کی اپیل پر منایا گیا جس کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نہایت مفید اثرات مرتب ہوئے تب سے آج تک یہ دن اہل کشمیر سے یکجہتی کی علامت بن چکا ہے۔آج ایک مرتبہ پھر ایسے موقعے پر 5فروری تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد ایک انقلاب انگیز تحریک اٹھی جس نے بھارتی استعمار کی چولیں ہلا ڈالیں ۔ مقبوضہ ریاست کے پیر و جواں مردو زن عظیم شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے اور تجدید عہد کے لیے سراپا احتجاج بن گئے ۔ کرفیو کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اہل کشمیر نے تحریک آزادی کے ساتھ اپنی لازوال وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ اس پر امن تحریک کو کچلنے کے لیے بھارت نے ریاستی دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ کیا ۔ دوسرے ہتھکنڈوں کے علاوہ اس مرتبہ پیلٹ گن جیسے ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے پندرہ ہزار سے زائد نوجوانوں کو شدید زخمی کر دیاگیا جن میں سے پانچ سو سے زائد ہمیشہ کے لیے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ۔ سات ماہ تک کرفیو کا ایسانفاذ کہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت تمام مساجد اور عید گاہوں میںجمعہ اور عیدین کی نمازوں پر پابندی عائد کر دی گئی اور مسجدیں مقفل کر دی گئیں ۔ سید علی شاہ گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق ، محمد یاسین ملک ، شبیر احمد شاہ ، آسیہ اندرابی اور ہزاروں حریت کارکنان کو گرفتار یا نظر بند کر دیاگیا لیکن اس کے باوجود بھارت تحریک کو کچلنے یا دبانے میں ناکام رہا ۔ اس تحریک نے مختلف محاذوں پر بے پناہ اثرات مرتب کیے ، ایک طرف کشمیر میں حریت قیادت مزاحمتی محاذ پر متحد ہو گئی اور ایک مشترکہ کلینڈر کے ذریعے پوری یکجہتی کے ساتھ تحریک مزاحمت کے پروگرام طے پائے جس کے نتیجے میں عوام کے حوصلے بلند ہوئے ۔ علاوہ ازیں کشمیریوں کی بے مثال استقامت سے بھارت کے اس پروپیگنڈے کے غبار سے بھی ہوا نکل گئی کہ سرحد پار سے در اندازی سے مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب ہوتے ہیں ۔ 

برہان مظفر وانی کی شہید کی بابرکت شہادت نے یہ ثابت کیا کہ یہ کشمیریوں کی داخلی تحریک ہے ۔ جو ان کے اپنے جذبہ جہاد ، شوق شہادت اور عزم آزادی کا مظہر ہے۔ اس تحریک نے بھارت کے اہل دانش کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی جسے بھارت کا اعصابی مرکز گردانا جاتاہے ، سمیت تمام بڑی دانش گاہوں اور تھینک ٹینکس میں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند ہوئی ،حتیٰ کہ سابق بھارتی وزیر خارجہ اور بی جے پی کے رہنما یشونت سنہا کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی بھی اس نتیجے پر پہنچی کہ محض ترقیاتی پیکیج اور ملازمتیں دینے سے یہ تحریک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ بنیادی مسئلہ حل نہ کیا جائے ۔ کمیٹی نے نوجوانوں کے جذبہ آزادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ کالے قوانین ،جبری ہتھکنڈوں اور کرفیو کے باوجود کشمیری نوجوان موت سے بے خوف ہو گیا اور وہ آزادی کے لیے ہر قیمت دینے کے لیے تیار ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ فی الفور مظالم ختم کرتے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے کشمیریوں اور پاکستان سے سنجیدہ بات چیت کا اہتمام کرے۔اس عرصے میں بیرون ملک کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی بھی متحرک رہی۔ نیویارک ، واشنگٹن ، لندن ، برسلز ، ڈنمارک میں بڑے مظاہرے اور کانفرنسز ہوئیں ۔ راقم اس عرصے میں دو ہفتے برطانیہ کے دوررے پر رہا جہاں برطانوی پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر پروگرامات میں ان کے ممبران پارلیمنٹ اور اہل دانش سے ملنے کا موقع ملا جنہیں ہم نے باور کرایا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو مودی جیسے انتہا پسند حکمران اس خطے پر ایٹمی جنگ مسلط کر سکتے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں خطے میں تباہی کے علاوہ مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائے گا ۔جن کے مفادات کی وجہ سے مغربی طاقتیں سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حالات کے اس پس منظر میں برطانیہ میں تحریک آزادی سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں کی محنت اور لابنگ سے حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا اور حق خود ارادیت کے حق میں قرارداد بھی منظور کی گئی اوربھارتی لابی کو منہ کی کھانی پڑی ۔ اس عرصے میں یو این ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیر زیر بحث رہا ۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں نے تو سن 2000ءمیں ہی بھارتی افواج کے ہاتھ کھڑے کر دیے گئے تھے جبکہ اس وقت کے چیف آف سٹاف نے علی الاعلان یہ اعتراف کیا تھا کہ طاقت سے یہ ختم نہیں کی جا سکتی ۔ مجاہدین سمیت تمام حلقوں سے بات چیت کرے لیکن پھر نائن الیون کے بعد کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے امریکہ سمیت دیگر استعماری طاقتوں کا سہارا لیا ۔ آج ایک مرتبہ پھر جہاں تحریک کی لہر نے ہمہ گیر اثرات مرتب کیے اور بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی فضا بنادی جہاں ہماری بات سنی جا سکتی ہے ۔ ان حالات ے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دی جائے۔٭ اس مسئلے کے فریق اور وکیل کی حیثیت سے برہان مظفروانی کی شہادت کے نتیجے میں تحریک آزادی کی انقلابی لہر کو مایوسی سے بچانے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے قومی اور کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک ایسی جامع حکمت عملی تشکیل دے جس سے حریت پسندوں کے حوصلے بھی بلند ہوں اور بین الاقوامی سطح پر بھارت پر ٹھوس دباﺅ مرتب ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن