زندگی کی دوڑ میں اور تخت و تاج کی ہوس میں انسانوں کے ہاں انسانی حقوق سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ جدتوں ، آسائشوں اور خوبیوں کی زندگی میں ہم صاحب اختیار اور صاحب ثروت ہو کر اپنے حقوق تو چاہتے ہیں لیکن کسی کمزور اور کسی ناتواں کو حقوق نہیں دینا چاہتے۔ یہ المیہ ہے آج کے انسان کا اور کل بھی تھا کہ ایک طرف انسان انسانیاتی علوم کو سمجھتا ہے اور دوسری طرف اسے پامال کرتا ہے۔ سوشل سائنسز یا عمرانی علوم کا بغور جائزہ لیں تو کوئی پولیو کے قطرے بنانے اور پلانے کے لئے سرگرم ہے تو کوئی اسلحہ سازی میں مصروف ایک طرف دنیا کو گلوبل ولج قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف آج کا امریکی صدر 7اسلامی ممالک کے لئے لائن کھینچتا ہے کہ وہ ممالک امریکہ سے دور رہیں۔ انسانیات کے تضادات حقیقت میں مسئلہ انسانی حقوق ہیں، اور یہ ہیومن رائٹس کا مسئلہ ہی در اصل مسئلہ کشمیر ہے! نیلسن منڈیلا نے بھی کہا تھا” انسانی حقوق سے انکار انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے!“
آج ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے تعجب کی عینک کو فیشن اور بینائی دونوں کے لئے لگا لیا ہے۔ اس نے واشنگٹن سے کلنٹن اور اوباما تک حتیٰ کہ جارج بش سینیٹر اور جارج ڈبلیو بش جو نئی سمیت سب امریکی صدور کی حکمت عملیوں اور فلسفے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینڈی( ڈیمو کریٹک) نے ایک دفعہ کہا تھا ” جب ایک انسان کا حق مارا جاتا ہے تو یہ سبھی انسانوں کے حقوق کو تھریٹ کرنے کے مترادف ہوتا ہے“۔ کہنے کو تو ایک دفعہ اقوام متحدہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل جان ایلیسن نے بھی کہا کہ ” امن کے بغیر تعمیر سازی نہیں اور تعمیر سازی کے بغیر بھی ممکن نہیں گویا امن اور تعمیر سازی کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق اور قانونی عمل کی عزت کی جائے“
ڈونلڈ ٹرمپ شاید بھول گئے کہ ری پبلکن پارٹی کے پہلے باقاعدہ صدر ابراہم لنکن نے بحیثیت 16ویں امریکی صدر (1861تا1865) دانشوروں کے حلقے میں بطور لبرل اور عوام دوست شخصیت کا لوہا منوایا، یورپ ، لاطینی امریکہ اور حتی کہ ایشیا میں لنکن کو پسند کیا جاتا ہے۔ امریکن تاریخ پروگریسو دور 1900تا 1920میں اسے ہیرو مانا گیا۔ یقینا موجودہ امریکی صدر ٹرمپ پہ بھی نظر انداز کر دیا ہے کہ اسکے Lockeanاور Burkeenاصول بزنس اور ترقی کیلئے تھے نہ کہ دشمنی اور تعصب کے لئے اسکے ری پبلکن ازم کی معروف بات یہ تھی کہ وہ ملکی ترقی کےلئے اپنے ناقدوں اور سیاسی مخالفوں کو بھی Hold your friends close and your enemies closerتھیوری کے تحت ساتھ لے کر چلتا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے آپ کو پھیلانے کے بجائے سکڑنے کے طریقے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے امریکی تھنک ٹینک یعنی امریکہ انسٹیٹیوٹ آف پیس کے ایک طویل خطاب میں ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسی تاریخ مرتب نہ کرے جس میں کچھ ممالک اور عالمی برادری کے درمیان ایک لائن کھینچ لی جائے۔ اس طرح یہ دور آگے جا کر بد ترین دور کہلائے گا۔ معتدل مزاجی پر زور دیا گیا۔ سب ملکوں کو ساتھ لے کر چلنے اور حقیقی گلوبل ولج کی پالیسی پر چلنے کا مشورہ دیا۔ بلاول بھٹو پاکستان کی جانب سے اس فورم پر تقریر کرنے والے کم عمر ترین مقرر اور لیڈر قرار پائے۔ ایک بڑی خوبصورت بات یہ بھی کی گئی کہ میری عمر کے نوجوان مسلمان تعلیم و تربیت و ترقی کے خواہاں ہیں۔ اچھے مسلمان بھی ہیں اور امن پسند بھی۔اس سے چند دن قبل سابق صدر اور پی پی پی کے سر پرست آصف علی زرداری نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائم کو انٹرویو دیتے ہوئے نو منتخب صدر پر زور دیا کہ کشمیر کی طرف دھیان دیا جائے کیونکہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پورا خطہ بحران اور بد امنی کا شکار ہے۔ اس بد امنی کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیتے ہوئے سابق صدر زرداری نے عام فہم اور کھلے لفظوں کا استعمال کیا جن کی تہہ تک صدر ٹرمپ کو پہنچنا چاہئے۔ ٹرمپ کو کشمیر میں ہونے والے مظالم ، انسانی حقوق کی پامالی کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔ اس خطے میں بہتری کے لئے زرداری صاحب نے زور دیا کہ مرحوم ہالبروک جیسے سفیر ڈھونڈ کر پاکستان اور اور اس خطے میں بھیجے جائیں۔ اس طرح انہوں نے اینی پٹیرسن جیسی سفیر کو پاکستان میں سفیر مقرر کرنے کی اہمیت کا بھی تذکرہ کیا۔ در اصل یہ دونوں شخصیات بطور اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کا تجربہ رکھنے کے علاوہ اقوام متحدہ میں بطور سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ہالبروک تو افغان امور کے خصوصی ایلچی بھی رہے تھے ۔گویا عقل و دانش اور وسیع تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت پر توجہ دلائی گئی کیونکہ اقوام متحدہ سے منسلک اور اس خطے سے منسلک خارجی امور کا ماہر جانتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے۔ اور یہی اس کے حل میں کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت1948ءکی پاک بھارت جنگ کی پاداش میں بھاگا بھاگا خود ہاں بھارت خود اقوام متحدہ میں لے گیا اور اقوام متحدہ نے جنوری 1949ءمیں متفقہ قرار داد منظور کی کہ وہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے“ اس مقدمہ میں بہت بڑی اخلاقی برتری ہوئی۔ بھارت کی جانب سے شیخ عبداللہ اور آزاد کشمیر کی طرف سردار ابراہیم پیش ہوئے (جو آزاد کشمیر کے صدراور پی پی پی کے رہنما بھی رہے) پاکستان نے امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے ثالثی کی تجویز کو خوشدلی سے تسلیم کر لیا تھا لیکن متعصب اور ہٹ دھرم بھارت نے انکار کیا۔ واضح رہے کہ ان دنوں امریکہ میں ہیری ایس ٹرومین (1945تا 1953) صدر تھے جو ڈیمو کریٹ تھے۔ لیکن ان کی توجہ کوریا، چائنہ وغیرہ کی طرف رہی حالانکہ ان کا دور فارن افیئرز کے حوالے سے ٹرننگ پوائنٹ کا دور تھا مگر وہ بھی نہ سمجھ سکے یہ مسئلہ بعد از مسئلہ کشمیر بن کر پوری دنیا کا مسئلہ بنا رہے گا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹس ڈالس نے 1953ءمیں ریاست کی تقسیم ہی واحد حل کی تجویز دی کشمیر کا مقدمہ تاریخی اور قابل تعریف انداز میں ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت وزیر خارجہ لڑا (آج کوئی وزیر خارجہ ہے نہیں اور کشمیر کمیٹی سر براہ مولانا فضل الرحمن کشمیر سے ذہنی مطابقت نہیں رکھتے) 1989ءسے آج تک نوجوان آزادی کشمیر کی تحریک کے لئے کوشاں ہیں، مقبول بٹ سے برہانی وانی تک کے لہو نے تحریک برپا کی ہے، تحریکیں اندر سے اٹھتی ہیں، دل سے اٹھتی ہیں یہ مقبوضہ کشمیر کی اپنی ذاتی اور فطری تحریک ہے۔5فروری یوم یکجہتی کشمیر وہ فکری دن ہے جو اعادہ کرتا ہے اور عالمی طاقتوں بشمول اقوام متحدہ سے انصاف مانگتا ہے۔ حصول انصاف ہزاروںجانیں جا چکی ہیں۔ لیکن مشرقی تہوار اور جنوبی سوڈان کو اس لئے آزادی مل گئی کہ مسلمانوں سے لینی تھی۔ لیکن کشمیر کو حق نہیں ملا کیونکہ یہ مسلمانوں کا حق تھا! ٹرمپ انتظامیہ مسئلہ کشمیر کو دیکھیں تو سہی یہ ہے کیا ؟؟؟