لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین ججز کو غیر جانبدار رہنے کا پابند بناتا ہے ،کوئی بھی جج اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق فیصلہ نہیں کرسکتا، ہمیں معلوم ہے کہ عدلیہ کا احترام کیسے ملحوظ رکھنا ہے، قانون کی سوجھ بوجھ رکھنا ججز کے فرائض میں شامل ہے، ماتحت عدالتوں کو اعلیٰ عدلیہ کے رجحان کا ادراک ہونا چاہیے۔ انسان اور انصاف دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں۔ عدالتوں کو مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، جج انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کا پابند ہے۔ انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انصاف کی کشتی چلاتے رہیں گے، ناانصافی پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، کسی کو قانون کے منافی فیصلے کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا حضرت علیؓ کا قول ہے ظلم کا نظام چل سکتا ہے ناانصافی کا نہیں، ایماندار اور غیرجانبدار عدلیہ معاشرے کی ضرورت ہے۔ انصاف فراہم کرنیوالے منصف کو خود بھی انصاف ملنا چاہیے، ہمیں معلوم ہے کہ عدلیہ کا احترام کیسے ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔ عدلیہ کو درپیش مسائل حل کریں گے۔ ایتھوپیا میں ایک جج کی ٹریننگ بارے پتہ چلا ہے کہ وہاں یہ دورانیہ ایک سال ہے۔ ہمارے ہاں مقدمات کے دباﺅ اور دیگر وجوہات میں تربیت کا کم موقع ملتا ہے۔ تمام ججز کے پاس انصاف کے یکساں اختیارات اور طاقت ہے۔ صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سے خطاب میں جسٹس میاں ثاقب نے نثار نے کہا ہے کہ کسی بھی جج کو قانون سے باہر نکل کر اپنی صوابدید اورمن مرضی سے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے جج اور ضلعی عدلیہ کے سول جج میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کے پاس بھی انصاف کرنے کا اختیار ہے اور سول جج کے پاس بھی فراہمی انصاف کا ہی اختیار ہے۔ انکی خواہش تھی کہ وہ اپنے جوڈیشل افسروں سے ملاقات کریں۔ وہ ایک کمانڈر کی طرح اپنے سپاہیوں سے ہر ضلع میں جا کر کے ملنا چاہتے تھے مگر کچھ مصروفیات کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا، اسلئے وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے مشکور ہیں جنہوں نے ایک چھت کے نیچے صوبہ بھر کے سیشن ججز اور سینئر سول ججز کو اکٹھا کر کے ملاقات کرائی۔ انسان کے وجود اور انصاف کی طلب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے معاشرے میں بھی کسی انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہوگی اور اس بناءپر اختلافات جنم لیتے ہوں گے اور ان مسائل کے حل کےلئے وہاں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہوگا جس کی ایمانداری پر سب کو اعتماد ہوتا ہو گا جسے وہ منصف سمجھتے ہوں گے۔ انصاف کی یہ ابتدائی شکل ارتقائی مراحل طے کر تے ہوئے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن منصف میں غیرجانبداری، آزادی، سوچ اور دیانتداری کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ آج یہ ادارہ مختلف قوانین کے تابع ہے اور منصف کوانہی مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ قانون کے علم پر دسترس رکھنا منصف کا بنیادی فرض ہے۔ قانون جانے بغیر وہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ بعض اوقات ضلعی عدلیہ کے ججز کی جانب سے جاری کئے جانے والے فیصلے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے وضع کردہ اصولوں اور قوانین کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا جو قوانین سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس نے سیٹ کئے ہیں ہم اس کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں یا نہیں۔ قانون کے مطابق کئے جانے والے سول ججز کے فیصلوں کو بھی ہم معتبر سمجھتے ہیں اور وہ سپریم کورٹ تک بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ سپریم کورٹ کو تمام جوڈیشل آفیسرز پر مکمل اعتماد ہے۔ مجھے جوڈیشل افسروں سے ایک سال کی کارکردگی تحفے میں چاہیے۔ ایک سال پوری ایمانداری، دیانتداری، محنت و لگن سے کام کریں۔ پھر ایک سال کے بعد آپ کو اسکی عادت ہو جائے گی اور آپ مکمل انصاف کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ جوڈیشل افسروں کی ضروریات اور تقاضے ان کے علم میں ہیں۔ ان کی عزت نفس کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ جوڈیشل افسران خصوصاً فی میل ججز کی سہولت، تحفظ اور تمام مسائل کا حل متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر لازم ہے۔ جوڈیشل افسروں کی ٹریننگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے اندر سے سیکھنے سے متعلق ہچکچاہت ختم کریں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں واضح فرق علم کی طلب اور قانون کی عملداری ہے۔ جہاں سیکھنے میں عار محسوس کی جاتی ہے وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ سیکھنے کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میں بطور چیف جسٹس خود کو بھی ٹریننگ کےلئے پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ ججز میرا مان رکھیں گے اورانکے اندر ایک مثبت تبدیلی کا تاثر نظر آئے گا۔ جوڈیشل افسروں کی طاقت کے بھروسے پر ہم ایک متحرک اور موثر عدلیہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کی آمد پر خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی عدلیہ چیف جسٹس کی سربراہی اور رہنمائی میں بہتر سے بہتر کام کرے گی۔ ہمارے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہوں گے۔ جوڈیشل سروسز کے امتحانی طریقہ کار کو سپیئریر سول سروسز کے برابر لا رہے ہیں۔ اکیڈمی میں پری سروس ٹریننگ کا دورانیہ چھ ماہ کر دیا گیا۔ اس عرصہ میں جوڈیشل افسر نہ صرف اکیڈمی میں تربیتی کورسز کریں بلکہ عدالتوںمیں بیٹھ کر بھی ٹریننگ کریں گے۔ صوبہ بھر کے ججز کےلئے ٹرانسفر پالیسی بنائی جا رہی ہے جو پورے صوبے میں یکساں لاگو ہو گی۔ ساتھ ہی ساتھ فی میل ججز کو بھی مضبوط کر رہے ہیں۔ پنجاب میں مثبت تبدیلی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ عدلیہ میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم تبادلوں کے حوالے سے بڑی واضح پالیسی لا رہے ہیں۔ کسی کے کہنے پر ججز کی ٹرانسفرز نہیں ہوں گی۔ مجھے ڈسٹرکٹ جوڈیشری پر فخر ہے۔ میں تو اپنی جو ڈیشری کو کو رکمانڈر کہتا ہوں، ججز کی جتنی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اتنا ہی احتساب بھی سخت ہے جس کے اور بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ماتحت عدلیہ توقعات کے مطابق نتائج دے گی۔ وکلا رہنماﺅں سے گفتگو میں جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ایسا کوئی معاملہ نہیں جو افہام و تفہیم سے حل نہ ہو سکے۔ ہماری نشست کا مقصد یہ احساس کرنا ہے کہ ہمارے کچھ مسائل ہیں اور ہم نے مل جل کر ان کو حل کرنا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ میٹنگ میں کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی سب نے اپنے دل کی باتیں کی ہیں اور یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ تمام بار ایسو سی ایشنوں اور بار کونسلز نے ہرتال کلچر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام پروفیشنل وکلا عدالتوں میں غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے نازیبا رویئے کی مذمت کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون، ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ، عابد ساقی، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنایت اللہ اعوان، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی عظمت علی بخاری، جنرل سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن آفتاب احمد باجوہ، صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن رانا ضیاءعبد الرحمان، صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان شیخ جمشید حیات اور صدر لاہور بار ایسو سی ایشن چودھری تنویر اختر سمیت دیگر وکلا رہنمابھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آج یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ عوام کا اعتماد ہمارے ادارے سے اٹھنا شروع ہوچکا ہے، ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ہم ان کے ضامن ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک کی بقا اس انصاف کے ادارے سے جڑی ہے۔ اگر کسی ملک کی عدلیہ فنکشنل ہوتو اس ملک کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی سیاست سے بالاتر ہوکر اس ادارے کی بالادستی کےلئے کام کرنا ہے۔ عدلیہ کے ادارے کے دو ٹولز ہیں، جج اور وکیل۔ ہمیں ان دونوں ٹولز کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے۔ نوجوان وکلاءہمارا مستقبل ہیں۔ ہمیں خود کو دغا نہیں دینا۔ اگر کچھ کرنا ہے تو کرنا ہے اور اگر نہیں کرنا تو پیچھے ہٹ جائیں۔ لوگ تو اپنی آئندہ نسلوں کےلئے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ہیں۔ فیک ڈگریوں کا معاملہ بہت سنگین ہے ۔ اس کے خاتمے کےلئے بھی اپنی تجاویز دیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کا بھرپور تعاون آپ کو میسر ہوگا۔ اجلاس کے آخر میں سینئر قانون دان ملک سعید حسن (مرحوم) کے ایصال ثواب کےلئے دعا بھی کئی گئی۔ اجلاس میں موجود تمام وکلاءراہنماﺅں نے ہڑتالوں کے کلچر کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور عدالتوں میں ہونے والے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے ساتھ بدتمیزی نان پروفیشنل رویہ ہے۔ اگر کسی وکیل کو جج کے حوالے سے کوئی شکایت ہوتو وہ اپنی متعلقہ تحصیل بار ایسوسی ایشن یا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے رجوع کریں۔
چیف جسٹس