ہو سکتا ہے۔۔۔۔! عمران خان کہتے ہیں کہ ”ہو سکتا ہے آئندہ سال وفاق میں ہماری حکومت ہو“۔ ہو سکنے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے جارحانہ کرتوتوں کے سبب چار سال مدت اقتدار مکمل نہ کر سکیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چار سال کے دوران امریکہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسیاں اختیار کئے جانے کے بعد جذبہ انسانیت رکھنے والی مسیحی اور یہودی برادری بھی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے میدان میں کود پڑی جب کہ سوشل میڈیا پر ورلڈ حجاب ڈے کے نام سے چلائی جانے والی مہم میں خواتین اپنی حجاب میں تصاویر شیئر کر کے ٹرمپ کی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں۔ ہونے کو تو کچھ بھی درست یا غلط ہو سکتا ہے لیکن زمینی حقائق سے انکار نہےں ہو سکتا کہ امریکہ اور پاکستان میں سیاسی صورتحال واضح نہےں۔ ہو سکتا ہے خواجہ سعد رفیق درست کہتے ہوں کہ پیپلز پارٹی کی 5 سال کی ناقص کارکردگی نے ملک کو تباہ کر دیا تھا جسے ہم نے سنبھالا، ہمارے حکومت میں آنے سے پہلے قومی خزانے میں کچھ نہیں تھا اور 2013 میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں، ملک میں دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے، ملک لوڈشیڈنگ میں گھرا ہوا تھا مگر ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ملک سے توانائی بحران کو ختم کریں گے۔ ہم کسی سیاسی مصالحت کاشکار نہیں ہوئے، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کا پیچھا کیا جب کہ عوام کے ووٹ نے نوازشریف کو طاقت دی اور اب کراچی و بلوچستان کا امن بحال ہو رہا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سروے رپورٹ بھی درست ہو جس کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی مقبولیت کا گراف برقرار ہے۔ بات تو حیران کن ہے لیکن انٹرنیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینیئن کا سروے تو یہی بتا رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی قائدین میں وزیراعظم محمد نواز شریف ملک کے مقبول ترےن رہنما قرار دےئے گئے ہےں۔ سیاسی رہنما¶ں میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مقبولیت میں 39 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 32 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق 59 فیصد پاکستانیوں کو پانامہ بارے کچھ معلوم نہیں۔ 26 فیصد لوگ پانامہ لیکس کی مکمل تحقیقات چاہتے ہیں جب کہ 38 فیصد پانامہ لیکس کے بارے کچھ نہ کچھ دلچسپی رکھتے ہیں۔ 66 فیصد عوام نے وفاق میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ سروے اکتوبر 2016 میں کیا گیا تھا، جبکہ سابق آرمی چیف راحیل شریف کو 85 فیصد مقبولیت کا ووٹ ملا ہے،۔ حزب اختلاف اس سروے پر بھی سیخ پا ہو سکتی ہے اور اسے بھی ”دھاندلی“ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن بے ایمانی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ بے ایمانی الا ماشا اللہ نیچے سے اوپر تک پاکستانیوں کے لہو میں گردش کر رہی ہے۔ اپنا احتساب کوئی نہیں کرناچاہتا، حکمران اس قوم کو خلفاءراشدین کا نمونہ چاہیں؟
چیئرمین عمران خان مقبولیت میں 39 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 32 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر ہیں۔ 85 فیصد ووٹرز نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو ناپسندیدہ ترین لیڈر قرار دیا، جبکہ ناپسندیدگی میں پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری 80 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے اور عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کو 79 فیصد ناپسندیدگی کا ووٹ ملا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سروے رپورٹ میں پنجاب حکومت کو پہلا نمبر ملا۔ 79 فیصد لوگوں نے پنجاب حکومت کی کارکردگی کو سراہا۔ خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کو 73 فیصد پسندیدگی کا ووٹ ملا۔ سندھ حکومت کی کارکردگی پر 54 فیصد جب کہ بلوچستان حکومت کی کارکردگی کو 48 فیصد لوگوں نے سراہا۔
ہو سکتا ہے........
Feb 05, 2017