کشمیر یوں کی جدوجہد اور بھارتی فوج کا نفسیاتی خوف

1948ء میں آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو نے وزیراعظم ہندوستان کی حیثیت سے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا تھا کہ کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا مگر وہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا ۔پنج شیلا کے نام پر پنڈت جی امن کے کبوتر اڑاتے رہے مگر کشمیریوں کو حق آزادی دینے کی بجائے ہندوستان میں شامل کرنے کے لئے چاپلوسی ،مکروہ فریب ،لیت و لعل ،گٹھ جوڑ ،طاقت اور ہر قسم کے غلط حربے استعمال کرتے رہے۔ اس وقت کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس ایک نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے موجود ہے اس کے ارکان آزادی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں،ہندوستان کی عسکری قوت پر کاری ضربین لگارہے ہیں ۔پوری دنیا کی نگاہیں کشمیری عوام اور حریت پسندوں پر لگی ہوئی ہیں۔کشمیریوں سے متعلق اقوام متحدہ کیاقراردادوں میں کشمیری عوام کے لئے صرف دو آپشن یا اختیار ہیں کہ وہ اپنی پرضی سے پاکستان میں شامل ہو جائیں یا ہندوستان میں ۔اس میں کسی تیسرے آپشن کا ذکر نہیں۔غالباً تھرڈ آپشن کا نعرہ لگا کر کشمیری مسلمانوں کی ہمدردیاں جیتنے کی کوشش کی گئی۔اس وقت تو یہی نظر آتا ہے کہ سپر پاورز پورے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت میں نہیں ۔اس کے اپنے مفادات اور بدلتے حالات کے مطابق آپشن ہیں۔مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ،الجزائر کی جنگ آزادی کے ہیرو اور پہلے صدر بن بیلا سے ملنے گئے ۔صدر کے دفتر میں ملاقات ہوئی اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں بریف کرنے کے بعد بھٹو نے الجزئر سے حمایت کے لئے درخواست کی تو صدر بن بیلا الجزائر نے کہا کہ وہ کشمیری حریت پسندوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں ،مگر کشمیر ،یوں آزاد نہیں ہو گا ۔ بھٹو نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا تو صدر بن بیلا کرسی سے اٹھ کر کمرے کی پچھلی کھڑکی کے نزدیک کھڑے ہو گئے اور بھٹو کو اشارے سے پاس بلایا ، بھٹو ان کے نزدیک گئے ،تو انہوں نے کھڑکی کھول دی اور باہر کی جانب دیکھنے کے لئے اشارہ کیا ، بھٹو نے دیکھا تو وہاں آزادی کی جنگ میں شہید ہونے والوں کا ایک بہت بڑا قبرستان تھا۔ صدر بن بیلا نے کہا کہ الجزائر کو ان لوگوں نے آزاد کرایا ہے۔کشمیر بھی ایسے ہی آزاد ہو گا ۔ ہر بار نام نہاد انسانی حقوق کا علمبردار بھارت یوم جمہوریہ پر ہتھیاروںکی نمائش سے خطہ میں اپنا رعب بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔کنٹرول لائن پر فوجی کاروائیاں بھارت کی ڈھٹائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان اب جنگ کرنا آسان نہیں رہا ۔دونوں ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں، اس لئے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے انہیں روس اور امریکہ کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی محتاجی نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ جنگ ہوئی تو لائن آف کنٹرول تک محدود نہیں رہے گی۔
یقینا ایک وجہ اور بھی ہے،جسے نظر انداز نہیںکیا جاسکتا اور وہ وجہ کشمیر میں موجود بھارت کی سات سے آٹھ لاکھ فوج پر بڑھتا ہوا دبائو اور ایک نفسیاتی خوف ہے،جو بیماری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔لندن سے شائع ہونے والے ڈیلی ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر اور دوسرے بلند مقامات پر تعینات بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست اور ان میں احسا س شرمندگی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہی حالات کچھ اور عرصہ جاری رہے تو ان بیمار بھارتی فوجیوں کے ذہنوں میں موجود لاوا،کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اسلحہ کے زور پر کشمیری حریت پسندوں کی جنگ آزادی کو کچلنے کی ظالمانہ کاروائیوں کا نیٹ ورک بھک سے اڑ جائے گا۔ کشمیر میں متعین بھارتی فوجی کٹے ہوئے انسانی جسم ،جلتی ہوئی لاشوں،ترپٹی ہوئی جوانیوں اور خون کے لوتھڑوں کو دیکھ دیکھ کر اس قدر ذہنی تنائو کا شکار ہو چکے ہیں کہ نہ صرف خودکشی کر رہے ہیں بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو گولیاں مار مار کر ہلاک کر رہے ہیں۔کشمیر میں بھارتی جارحیت کھل کر نمایاں ہو چکی ہے ۔بھارتی فوج اپنی بربریت کا پوری قوت سے مظاہرہ کر رہی ہے۔ درندہ صفت ہندوستانی فوجی خون آشامی کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر آزادی کی تحریک کو دبایا نہیں جا سکا۔کشمیریوں کی جدوجہد غالباً بیسویں صدی کی سب سے بڑی جنگ آزادی ہے، جو ابھی تک جاری ہے۔جذبہ شہادت زندہ ہو تو ہر قسم کا اسلحہ بارود ،ظلم و ستم،مکر و فریب کے حربے آزادی کو دبانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ہندوستانی غاصبوں کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کی یہ عظیم جدوجہد اس عالمگیر جنگ کا حصہ ہے اور بالآخر یہ جنگ وہ جیتیں گے۔انشاء اللہ

ای پیپر دی نیشن