جل رہا ہے، میرا لہو رنگ کشمیر دیکھ!

ایک اور پانچ فروری کا دن آن پہنچا ہے جانے اس سے قبل بھی ہم کشمیر سے یکجہتی کے کتنے دن منا چکے ہیں لیکن ہر سال یہ دن آتا ہے ، کچھ تقریروں اور کچھ ٹی وی پروگراموں کے سہارے یہ دن گزر جاتا ہے ۔کشمیر سے ہماری محبت میں آخر کہیں تو کمی ہے کہ دنیا کے سامنے ہمارا مقدمہ اتنا کمزور ہے ۔ محسوس ہوتا ہے جیسے ساری پاکستانی قوم ، ہماری حکومت اور یہاں تک کہ آزاد کشمیر کے لوگوں نے بے حسی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اپنی قوم کے لوگوں میں وہ بے قراری کیوں دکھائی نہیں دیتی جو کسی قاتل کے ہاتھ جب شہ رگ پہ ہوں تو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے انسان تڑپ اٹھتا ہے ۔ جان ہر انسان کو پیاری ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے شاید ابھی ہمارے لوگوں کو کشمیر جان سے پیارا نہیں ہوا اسی لئے تو وہاں پر ظلم کا کو ہ گراں ٹوٹ رہا ہے مگر یہاں لوگوں کو اپنی پڑی ہے ، ہماری زندگی کے میلے اسی طرح جوبن پر ہیں اور کشمیر کی مٹی سے صدائیں اٹھ رہی ہیں ۔ بھارتی فوج کے ظالم بھیڑئیے کشمیر کی جانب جب مکروہ نگاہ ڈالتے ہیں تو پھر بستیاں جلتی ہیں ، عصمتیں لٹتی ہیں ، لہو گلیوں میں رستا ہے، زمین کانپتی اور آسمان روتا ہے۔ 

1946 میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد اعظم کی دور اندیشی نے کشمیر کی خطے میں اہمیت کو بھانپتے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947 کو سردار ابراہیم کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرداد الحاق پاکستان منظور کی ، لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہی کی قیادت میں 23 اگست 1947ء کو مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور پندرہ ماہ کی مسلسل جدو جہد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا اور مقبوضہ کشمیر کیلئے جاری جدو جہد آج 70 سال گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے ۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑ چکی ہے ۔ کشمیریوں کا آزادی حاصل کرنے کا جنون اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بھارت اس تحریک کو دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے ۔ اس وقت یہ حالات ہیں کہ آئے دن وہاں کرفیو نافذ رہتا ہے ، موبائل انٹرنیٹ سروس بھی اکثر معطل رہتی ہے تا کہ بیرونی دنیا تک بھارت کے مظالم کی داستانیں نہ پہنچ سکیں اور اخبارات اور پاکستانی چینل بند ہیں ۔ہندوستانی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے اب وہ ایسا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں جس سے اب تک ہزاروں لوگ نابینا ہو چکے ہیں لیکن وہ یہ بھول گیا ہے کہ خون سے لکھی گئی داستان ظلم و جبر سے مٹائی نہیں جا سکتی۔ مظفر وانی حزب المجایدین کا نوجوان کمانڈر اپنی شہادت سے آزادی کی تحریک میں ایک نئی جان ڈال گیا ہے اس کا پاکستان کے پرچم میں لپٹا ہوا جسد خاکی بھارت کو یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں ۔ اس کی شہادت کے بعد شہادتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا ۔
گزشتہ اور موجودہ پاکستانی حکومتوں کا رویہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خاصا مایوس کن رہا ہے ۔ ہماری کمزور سفارتکاری نے دنیا بھر میں کشمیر کے مسئلے کو کافی کمزور کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف ہمیں ایک عیار اور سفاک دشمن کا سامنا ہے جو کہ ظلم بھی خود کرتا ہے اور دنیا کے سامنے مظلوم بھی خود بننے کی کوشش کرتا ہے ۔ہماری حکومتیں کشمیر کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی لے کر نہیں آتیں اور نہ ہی مسلم دنیا کو اس مسئلے کے حل کیلئے اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔ کشمیر میں جاری بھارتی دہشت گردی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے سے بھی ہمیشہ گریز کیا گیا ہے ۔ حکومتی حلقوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ خود آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔
کشمیر کے مسئلے پر موجودہ حکومت کی پہلی دفعہ حکومتی سطح پر کچھ سنجیدگی وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے خطاب کے دوران نظر آئی ۔ نواز شریف صاحب نے ستمبر میں جنرل اسمبلی میں جو تقریر کی اس میں نہ صرف پہلی بار کشمیر کے مسئلے کی ناکامی پر اقوام متحدہ کے کردار پر سوال اٹھایا گیا بلکہ وزیر اعظم صاحب نے پہلی دفعہ بھارت کے ساتھ امن کیلئے 4 نکاتی فارمولا بھی اقوام متحدہ میں پیش کیا ۔ بھارت کی طرف سے ان تجاویز کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا ، مودی پاکستان آئے بھی تو نواز شریف کے گھر آمد نے کہانی کا رخ اور ہی کر دیا یوں محض باتوں اور تقریروں پہ ہی معاملہ رک گیا ۔ اسی طرح پچھلی پی پی پی حکومت نے بھی کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے بہت دعوے کئے بلکہ زرداری صاحب نے تو حلف اٹھانے کے بعد یہاں تک کہہ دیا کہ آپ جلد کشمیر کے حوالے سے خوشخبری سنیں گے لیکن پھر شاید وہ وعدہ کر کے بھول گئے اور ایسا بھولے ہیں کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکے۔
کشمیر کی مٹی پکار پکار کے کہ رہی ہے کہ اے پاکستان ، آزاد کشمیر کے لوگو ! اپنی آزادی کی قدر کرو اور ہم کب سے تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں ہمارے حق کیلئے آواز اٹھاوٗ اس لئے کہ ہمارا وجود تمہارے بغیر نامکمل ہے ۔
پاکستان میں کشمیری امور کے حوالے سے نوے کی دہائی میں کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ جس کو بنانے کا مقصد کشمیر کا مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلانا تھا ۔ کشمیر کے چیئر مین کو ایک وزیر جتنی مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔ پچھلے کا فی عرصے سے مولانا فضل الرحمن اس پہ براجمان ہیں ۔ کشمیریوں پہ ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پہ ان کی معنی خیز خاموشی نے انکی منافقانہ سیاست کا چہرہ لوگوں کے سامنے بری طرح سے بے نقاب کر دیا ہے ۔ ہمیں کشمیر کمیٹی کے صدر کیلئے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دل کی آواز ساری دنیا تک پہنچا سکے ۔ جس کی گونج عالمی سطح پر ہر فورم پہ سنائی دے جو ہماری امنگوں کی ترجمانی کر سکے ۔

میری وزیر اعظم سے پر زور اپیل ہے کہ محض کشمیر سے یکجہتی کا دن منانے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ اس کیلئے سب سے پہلے ہمیں ساری دنیا کے سامنے کشمیر کی آزادی کا مقدمہ مضبوط سفارت کاری کے ذریعے لڑنا ہو گا اور تمام مسلم ممالک کو اپنا ہمنوا بنانا ہو گا تا کہ ہماری آ واز کے ساتھ دوسروں کی آواز مل کے اتنا اثر پیدا کر سکے کہ ہم مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ سکیں اور بھارت کی حقیقت دنیا کے سامنے عیاں کر سکیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کشمیری بھائیوں کی آزمائش کے دن ختم ہوں اور انہیں آزادی کی صبح نصیب ہو ۔

سارہ لیاقت....پیغام امید

سارہ لیاقت....پیغام امید

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...