زخم کے نہ بھرنے کا سبب جہاں مرہم کا فقدان ہوتا ہے وہاں اس کا کریدنا بھی ناسور کا باعث بن جایا کرتا ہے۔ زخم سے نجات کے لئے فراہمی مرہم اور کریدنے سے گریز کے سنگ سنگ اپنوں کی ہمدردانہ پھونکیں بھی باعث شفا ہوا کرتی ہیں!کبھی مجھے لگتا تھا کہ، قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا مگر آج کا عالمی منظر دیکھ کر محسوس یہ ہوتا ہے کہ کشمیر تو عالمی انسانی حقوق کی شہ رگ ہے۔ اور قائد کی دوراندیشی نے شہ رگ کی اصطلاح بہت سوچ سمجھ کر استعمال کی۔ اصل میں تو یہ نظریہ، بلکہ نظریہ انسانی کی شہ رگ ہے… ہزاروں کشمیری آزادی کشمیر اور بنیادی انسانی حقوق کی خاطر سفید چادر اوڑھ کر اور کچھ جام شہادت نوش کرنے کے بعد اپنے ہی لہو میں لت پت زیب تن لباس میں زیر زمیں سوگئے، کہ شاید عالمی ضمیر جاگ جائے لیکن… اقوام متحدہ میں پڑی قرادادوں کا تذکرہ، اور بار بار تذکرہ، اب ایک پرانی کہانی کے علاوہ کچھ نہیں لگتا… لیکن اس پرانے قصے کو فراموش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے جو بھارتی قیادت کی وعدہ خلافیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر روز برپا ایک قیامت ہے اور کشمیری ہیں جو مقبوضہ کشمیر کی دھرتی پر موجود شادابی کو روزانہ گرم خون دیتے ہیں۔ آزادی کی تحریک کو روزانہ تازہ لہو سے پالنے کی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن عالمی ضمیر یہ سب مردے کی طرح دیکھ رہا ہے، جو نہایت افسوس ناک ہے۔ عظیم کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کی بازگشت پاکستان کے کوچہ و بازار میں سنائی دے رہی ہے کہ ’’پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے۔ 1947 سے ہم اس کے ساتھ الحاق کیلئے تڑپ رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں!‘‘… کچھ ہی دن قبل 26 جنوری کو بھارت نے یوم جمہوریت کے طور سے منایا جبکہ دنیا بھر میں کشمیریوں نے اسے یوم سیاہ کے طور پر منا کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کے طاقتور لوگو کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل بھارتی فوج اور دیگر ایجنسیاں پورے جبر کے ساتھ انسانی حقوق کو پامال کررہی ہیں۔ کیا جمہوریت انسانی قدروقیمت ، ہر فرد کی اہمیت اور آزادیٔ رائے کا پرچار نہیں؟ اقوام متحدہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کیلئے پیمانے اور جبکہ مقبوضہ کشمیر کے لئے پیمانے اور، کس بنیاد پر رکھتی ہے؟ کیا کشمیری انسان کے ساتھ جو مسلم کا لفظ آتا ہے وہ گلوبل ویلج کے باشندوں کے تعصب کو ظلم اور ناانصافی پر مجبور کردیتا ہے؟آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کیلئے پیار چھلک رہا ہے کہ القدس کو اس کا کیپٹل قرار دیتا پھرتا ہے۔ جو بدمعاش ریاست کو ایک تحفہ اور مسلمانوں کو ایک گہرا زخم دینے کے مترادف ہے۔ چند برس ہوئے مسلمان ممالک انڈونیشیا اور سوڈان میں کشمیر کے مقابلہ میں معمولی تحریکیں چلیں تو ریفرنڈم کروا کر غیر مسلموں کو خودمختار ریاستیں فراہم کر دیں۔ جیسے1999 میں مسلم ملک انڈونیشیا میں ریفرنڈم ہوتا ہے اور 20 مئی 2002 کو 21ویں صدی کی پہلی خودمختار ریاست مشرقی تیمور وجود میں آجاتی ہے۔ اسی طرح ایک ننھی سی تحریک کے بعد 9 جولائی 2011 میں، جنوبی سوڈان مسلم ملک سوڈان میں ریفرنڈم کے بعد وجود میں آجاتا ہے۔ دوسری جانب کشمیر کی عظیم تحریک اور بہت بڑی قربانی کو اقوام متحدہ خاطر ہی میں نہیں لاتا…؎
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں
عالمی ضمیر کو جگانے اور کشمیر سے متعلقہ انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے عالمی برادری کو بتانے کے لئے 5 فروری کا دن بطور خاص 1989 مختص کیا گیا۔ یہی 5 فروری کا دن 1990 میں اور زیادہ پرعزم آواز ٹھہرا جو یوم کشمیر سے یوم یکجہتی کشمیر بن گیا۔ گویا اس دن کو تحریک آزادی کشمیر اور تاریخ کشمیر کی اذان کا روز تصور کرلیا گیا کہ اعادہ تر وتازہ اور ارادہ جواں رہے۔ کم از اس دن عزم و استقلال کی بیٹریاں چارج اور ری چارج ہوں، اس نفسیات اور احساسات کو جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) نے خصوصی جلا بخشی۔ تب سے آج تک 5 فروری آواز کشمیر کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ کشمیر کی تیسری نسل حریت پسندی کی دہلیز پر ہے، پچھلے دنوں برہان وانی کے جوان خون اور تازہ قربانی نے ایک دفعہ پھر کشمیریوں کی جانب سے آزادی کی امنگ کو شباب بخشا تو دوسری جانب بنئے نے آتش و آہن کو کشمیریوں کے سینے میں اتارنے کے ظلم کی انتہا کردی۔ کاش تحریک پاکستان کے قائداعظم کے تجربہ سے شیخ عبداللہ نے استفادہ کیا ہوتا، ہوس اقتدار اور جواہر لعل نہرو کی دوستی میں کشمیر کو ظالموں کے ہاتھوں سے نکلوایا ہوتا… آج 5 فروری کو جو لوگ اسے محض چھٹی کا روز ہی سمجھتے ہیں ان سے استدعا ہے کہ وہ کشمیریوں کیلئے کم از کم اللہ کے حضور دست دعا ہی بلند کردیں۔ واضح رہے کہ جہلم،چناب اور سندھ وہ بڑے دریا ہیں جو کشمیر سے نکلتے ہیں، چھوٹے دریاؤں میں نیلم اور توی بھی شامل ہیں۔ اور بھارت ان پر ڈیم بنائے جارہا اور نہریں اپنے پنجاب اور دیگر علاقوں میں پھیلانے کے درپے ہے تاکہ پاکستان کی شادابیوں اور روانیوں کے آگے بند باندھ دے تاہم زیادہ برف کے پگھلنے کے تناظر میں اچانک پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جو سیلاب بن کر پاکستان میں تباہ کاریوں کا سبب بنتا ہے۔ بھارت یہ مکاری دو سے زائد بار کر بھی چکاہے۔ ذہن نشین رہے،جموں کشمیر کے شمال مشرقی پہاڑوں پر دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں جن میں کے ٹو 8611 میٹر، نانگاپربت 8125، گاشربرم(1) 8068 گاشربرم (2) 8065 چوڑی چوٹی 8047، دستک سار 7882، راکاپوشی 7788 ، اور کنجت سار 7761 میٹر کی بلندی پر ہیں۔
ہاں، وہ دن بھی یاد ہیں جب کچھ عرصہ قبل من موہن حکومت کے دور میں پاکستان نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اس نے گلگت بلتستان کو اپنا علاقہ قرار دینے کی مکاری سے پاکستان کی خوش فہمی کو آئینہ دکھا دیا تاہم کچھ ماہ قبل سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سارک کانفرنس 4 اگست 2016 کے موقع پر جب کشمیر کے حوالے سے سچ بولا کہ دہشت گردی اور تحریک آزادی میں فرق ہوتا ہے اور بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم کررہا ہے تو بھارتی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ سچ برداشت نہ کر سکے اور ناراض ہوکر کانفرنس کا بقیہ سیشن چھوڑ کر واپسی کا رستہ لے لیا۔
پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک اہم پارلیمانی کمیٹی برائے امور کشمیر موجود ہے جس کا کام قومی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز پر آواز اٹھانا ہے۔ یہ کمیٹی سینٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ وزارت خارجہ کے بعد اس کا ایک اہم رول ہے (اگر یہ ادا کرے)۔ موجودہ حکومت اور سابق زرداری حکومت کے مشترکہ منظور نظر مولانا فضل الرحمن مسلسل دوسری دفعہ (2008 تا 2013 اور 2013 تا 2018) کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں جس کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے اور ان کی جانب سے کارکردگی آج تلک انتہائی ناقص اور قابل افسوس۔ اس سے قبل نوابزادہ نصراللہ خان 1993 تا 1996 اور چوہدری محمد سرور 1997 تا 1999 اسی کمیٹی کے چئیرمین رہے۔ پھر حامد ناصر چٹھہ بھی 2004 تا 2007 چئیرمین رہے۔ اب تک کا ریکارڈ ٹریک یہی ظاہر کرتا ہے کہ، ان چیئرمین حضرات اور کمیٹیوں کی سیاسی و سماجی سرگرمیاں تو خوب رہیں مگر سفارت کاری کا فقدان۔ اس حکومت نے تو 20 سے زائد ممبران اسمبلی کو امور کشمیر کے حوالے سے ایلچی بھی قرار دیا کہ وہ مختلف ممالک کے دورے کرکے کشمیر کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کریں مگر یہ لوگ کشمیری امنگوں پر پورا اترنے سے قاصر رہے۔ ستم تو یہ ہے کہ یہ دور 4 سال وزیر خارجہ ہی سے محروم رہا چہ جائیکہ ہم کسی ایک کو محض کشمیر کے لئے وزیر خارجہ بنا دیتے۔ ہم نے جس قدر زیادہ کوشش کی کہ بھارت کو خوش رکھیں اس نے اس کے الٹ کیا، ایل او سی سے سفارتی محاذوں تک بھارت نے دھوکا ہی دیا۔ کشمیر کے نہتے عوام پر ظلم کم کرنے کے بجائے بڑھائے رکھا۔ کلبھوشن یادیو جیسے دہشت گرد جاسوس سے نرمی کو اس نے پاکستان کی کمزوری جانتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ، آزادی کشمیر اور انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان اپنا بھر پور موقف عالمی برادری کے سامنے رکھے اور اقوام متحدہ کے سامنے پھر سے حقائق رکھیں۔ سعودیہ، قطر، ایران، ملائیشیا اور ترکی جیسے دوستوں کو 5 فروری یوم اظہار یکجہتی کشمیر کے تناظر میں اعتماد میں لیا جائے اور اخلاقی و سفارتی مدد مانگی جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو عالمی برادری انسانی و جمہوری حقوق دلائے۔ آخر یہاں انسانی حقوق کی پاسداری کو دراندازی اور دہشتگردی کا نام کیوں دیا جاتا ہے اور یہ نام دیتا بھی وہ بھارت ہے جو پورے ملک میں اقلیتوں کو سرنگوں اور تلف جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بندوق اور بارود سے دہشتگردی اور حکمت عملی سے حق رائے دہی سے محروم رکھ کر خود کو جمہوری ریاست منوانے کیلئے یوم جمہوریت مناتا پھرتا ہے جو درحقیقت یوم سیاہ ہے۔ کشمیری امنگ کو بھارتی جنگ نہیں دباسکتی تاہم ہمیں کشمیری زخم کا مرہم بننا ہوگا۔ کشمیر کی تیسری نسل جدوجہد کے زخم سینے پر کھا رہی پس پاکستانی نئی پود سیاسی و جمہوری و جغرافیائی اعتبار سے کشمیر کے پاکستان کے شہ رگ ہونے کامطلب سمجھے، اور مسیحائی بھی۔ علاوہ ازیں کشمیر کے اطمینان کا مطلب ہی گلوبل ویلج کا امن ہے!