سپورٹس بوڑد پنجاب کے زیر اہتمام بین الصوبائی قائد اعظم گیمز جیتنے والے کھلاڑیوں میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی گئی۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے انعامات کی بروقت تقسیم انتہائی ضروری ہے۔ کھیلوں کے جوان وزیر جہانگیر خانزادہ کی موجودگی سے کسی بھی منصوبے کی افتتاحی تقریب اس لیے بھی اچھی ہو جاتی ہے کہ وزیر صاحب خود بھی اچھے شاٹس کھیلتے ہیں۔ وہ کھیلوں کی وزارت سنبھالے ہوئے ہیں خود بھی سپورٹس لور ہیں انہیں دیکھکر انکے شہید والد شجاع خانزادہ بھی یاد آتے ہیں۔ جہانگیر خانزادہ پر دوہری ذمہ داری ہے والد کے نام کو آگے لیکر چلنا اور صوبے کے نوجوانوں کے لیے صحت مند سرگرمیوں کا بندوبست کرنا ہے۔ اس تقریب میں اختر رسول بھی موجود تھے انکی تقریر صحافتی حلقوں میں موضوع بحث ہے نوجوان سپورٹس جرنلسٹ ثناء اللہ خان بتا رہے تھے کہ یہ تقریر نوجوان کھلاڑیوں کو ضرور سنانی چاہیے۔ سجال کے صدر عقیل احمد نے کہا کہ اختر رسول ایک اچھے مقرر ہیں وہ نوجوان کھلاڑیوں کو متحرک کرنے، جوش وجذبہ بڑھانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یوں صحافتی حلقوں کے مطابق اختر رسول نے تقریب تقسیم انعامات کا میلہ لوٹ لیا۔ اختر رسول نے اس تقریب میں ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں نوجوانوں میں جذبہ حب الوطنی بڑھانے کے لیے انہیں متحرک کیا، اپنے حلقے کے ووٹرز کے ضروری کاموں کے لیے وہ کئی دن سے کچھ صوبائی وزرا کی تلاش میں تھے یہاں وہ ان صوبائی وزرا کو بھی قابو کرنے میں کامیاب ہوئے۔ صوبائی وزرا نے تمام اہم مسائل کے حل کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ ویسے اختر رسول کی سپورٹس مین سپرٹ آج بھی جوان ہے وہ ہمت نہیں ہارتے، محنت اور جستجو ایک کھلاڑی کی طرح ہی رکھتے ہیں۔
وہ ایک کامیاب ہاکی پلئیر اور ورلڈکپ کے فاتح کپتان ہیں۔ انہوں نے اس زمانے میں ہاکی کھیلی اور کامیابیاں حاصل کیں جب ہاکی پلئیر کو ملک کی ایلیٹ سمجھا جاتا تھا۔ ہاکی کا مقام حقیقی معنوں میں قومی کھیل کا ہی تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں پاکستانی کھلاڑیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بیرونی دنیا میں ہمارے کھلاڑیوں کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اس سنہرے دور میں ہاکی کا ایک ہیرا اختر رسول ہے۔ کامیاب ہاکی پلئیر اور کپتان پھر سیاست کے میدان میں طبع آزمائی پھر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت، ٹیم کی کوچنگ اور پھر ہاکی فیڈریشن کی کرسی صدارت پر خدمات انجام دینے کے بعد ان دنوں وہ سیاسی میدانوں میں نظر آتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں بھی کامیاب رہے اور سیاسی میدان میں بھی لیکن ہاکی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ نوائے وقت کے سینئر کالم نگار برادرم اکرم چودھری کے مطابق اختر رسول کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت محبت کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور دعا کی کثرت انہیں مصائب سے دور رکھتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اختر رسول جب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بات کرتے ہیں تو کسی عالم سے کم نہیں لگتے۔
ہاکی منتظم کی حیثیت سے وہ اپنے دوسرے دور میں مکمل طور پر ناکام رہے اسکی ایک بڑی وجہ انکی اپنی سیاسی جماعت جس کی سربراہی اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کر رہے تھے۔ انہیں ایوان وزیراعظم نے ناکام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اختر رسول کو مسلم لیگی ہونے کے باوجود فنڈز جاری نہیں کیے گئے جبکہ بعد میں آنے والے خالد سجاد کھوکھر پر خزانے کے دروازے کھول دیے گئے۔ اختر رسول پر فنڈز کی بندش اور موجودہ صدر پر نوازشات دونوں ہی سیاسی فیصلے ہیں۔ اختر رسول کا وزن خاصا بڑھ گیا ہے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف جلسوں میں اسکا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سابق کپتان کا وزن کم ہونا چاہیے لیکن اسکا امکان نظر نہیں آتا۔ اختر رسول اب خود تو کھیل نہیں سکتے لیکن اپنے تجربے اور ایک محب وطن کھلاڑی کی حیثیت سے اپنا تجربہ ضرور منتقل کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کامیابی کے لیے دل و دماغ کا صاف ہونا روزانہ نو گھنٹے پریکٹس کرنا بہت ضروری ہے۔ میں ورلڈ چیمپئین بنا تو نو گھنٹے روزانہ پریکٹس کرتا تھا آج کا کھلاڑی بمشکل چار گھنٹے پریکٹس کرتا ہے دنیا کو فتح کرنے کے لیے اتنی پریکٹس سے کام نہیں بن سکتا۔ کسی بھی کھلاڑی کے لیے میدان میں داخل ہونے سے پہلے منزل کا تعین ضروری ہے۔ میں 1966 میں ایک ٹرائلز پر گیا تھا اسی وقت تین سے چار سال میں قومی ٹیم کا حصہ بننا ہے یہ وہ دور تھا جب ہاکی ٹیم دنیا پر راج کرتی تھی اور پاکستان ٹیم میں جگہ بنانا مشکل ہی نہیں مشکل ترین کام تھا۔ منزل کا تعین اور ہدف کے حصول کے لیے دن رات محنت کی پھر عالمی چیمپئن بنا بھارت میں ہونیوالا عالمی کپ جیتا کئی عالمی اعزازات حاصل کیے یہ سب کام ملک کی محبت اور خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے کیے۔ کبھی ہمت نہیں ہاری، کبھی دائیں بائیں ادھر ادھر نہیں دیکھا ہاکی گراونڈ ہاکی گیند کے علاوہ سب کو نظر انداز کیا۔ آج بھی کھلاڑی کو منزل کا تعین کرنا چاہیے وطن کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بیانات نہیں عملی طور پر ہونا چاہیے۔ چار گھنٹے کی ٹریننگ کے بجائے نو دس گھنٹے کھیل کے میدان میں گذاریں میدان سے محبت کریں تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اختر رسول اور دیگر کامیاب کھلاڑیوں کی فتوحات میں نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ہم ہاکی میں کھویا ہوا مقام ایمانداری، محنت، انصاف، جذبہ حب الوطنی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے۔ تنزلی کی وجہ یہی ہے اور ہم آج تک دیگر چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اختر رسول کا فلسفہ جیت صرف کھلاڑیوں کی حد تک محدود نہیں ہے اسکا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے بابو اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے حکمرانوں سب کے لیے لازم ہے کہ وہ اس فلسفے پر عمل کریں۔
وزیر کھیل جہانگیر خانزادہ کے لیے سب اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں جب تک چولہا نہیں جلے گا کھلاڑی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بہتر طریقے سے کھیل اور کھلاڑیوں پر خرچہ ایسا منافع بخش کاروبار ہے جس سے نسلیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ دعا ہے کہ حکمران نسلوں کو سنوارنے کی طرف توجہ دیں۔ کھیل اور کھلاڑی کو اسکا جائز مقام دیں ایسے اقدامات سے فیصلہ سازوں کا رتبہ بلند ہو گا اور وہ تاریخ کی کتابوں میں زندہ رہیں گے۔