کشمیر کا تذکرہ چھڑتے ہی شہیدوں اور شہادتوں کا تصور آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ آج ہی سے نہیں بلکہ بہت پرانا جاری ہے 13جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے باہر کشمیری مسلمان قرآن مجید کی بے حرمتی کیخلاف سراپا احتجاج تھے۔ ڈوگرہ راج کیخلاف مسلمانان کشمیر کے جذبات ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ اذان کا وقت ہونے پر ایک مسلم نوجوان نے اذان شروع کی تو ڈوگرہ راج کے ظالموں نے اس نوجوان کو اذان کی آواز بند کرنے کی پاداش میں گولیوں سے چھلنی کر دیا اس کی شہادت کے فوراً بعد اذان کی تکمیل کیلئے دوسرا نوجوان اٹھا اور اس نے اذان شروع کی ڈوگرہ پولیس نے اسے بھی شہید کر دیا یکے بعد دیگرے 22 مسلم نوجوان ایک اذان کی تکمیل کیلئے جام شہادت نوش کر گئے مگر انہوں نے صدائے تکبیر کو پست نہیں ہونے دیا انکے سینے پر لگتی گولیاں توحید و رسالت کی بولیاں دبا نہ سکیں۔ مختلف ادوار میں کشمیر میں آزادی کی تحریک انگڑائی لیتی رہی 14اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو پوری وادی کشمیر میں چراغاں کیا گیا اور تمام اہم جگہوں پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے لیکن 17 اگست کے ریڈکلف اعلان میں ضلع گورداسپور کی مسلم اکثریت والی دو تحصلیں بٹالہ اور گورداسپور ایک گھنائونی سازش کے تحت بھارت کے حوالے کر دی گئیں۔ صرف یہ ہی نہیں مسلم اکثریتی آبادی کا ضلع فیروز پور کو دیکر بھارت کو کشمیر میں فوج داخل کرنے کا زمینی راستہ فراہم کر دیا گیا۔ طے شدہ اصول کے مطابق کشمیر کا مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے پاکستان سے الحاق یقینی تھا۔ مگر انگریز اور ہندو بنئے کی سازش نے ایک بار پھر کشمیر کی آزادی پر شب خون مارا جس کے نتیجہ میں آج تک کشمیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود کشمیری مسلمان ہر گز بھارتی غلامی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ تحریک حریت کو مسلسل اپناخون دیتے آرہے ہیں اس ہو کے عالم میں بھی مرد و زن، بچے، بوڑھے اور جوان یہ نعرہ لگا رہے ہیں ’’ہم لے کے رہیں گے آزادی‘‘ اور پورا کشمیر ’’بھارتیوں واپس جائو کے نعروں سے گونج رہا ہے‘‘ ان کی جدوجہد آزادی اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے مگر ایسی تحریکوں کو دبانے کیلئے طاقت کا استعمال دہشت گردی قرار پایا ہے۔ حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی نے بھارت کی نیندیں اڑادی ہیں کشمیری مجاہدین کے ایمانی جذبات کی پے در پے ضربوں نے بھارتی ایوان ظلم کی بنیادیں ہلا دیں ہیں بھارتی افواج نے پوری مقبوضہ وادی کو مقتل بنا دیا ہے شہداء کشمیر کے خون کے چھینٹوں سے عالمی سطح پر بھارتی درندگی عیاں ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یور ایشیا تھنک ٹینک اور ایشیا گلوبل پالیسی نے بھارت کی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز بلند کرتے ہوئے ملک شام سے بڑا المیہ قرار دیا ہے۔ بھارت میں جرمن انسانی حقوق کے کمشنر نے وہاں انسانی حقوق کی پامالیوں اور آزاد اظہار رائے پر بدترین پابندیوں کا کھل کر ذکر کیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم میڈیا واچ جموں و کشمیر انٹرنیشنل نے سال 2018ء کی رپورٹ میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنیوالا نمبر ون ملک قرار دیا ہے۔ ملائیشیا میں قائم 200 غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد نے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کیخلاف جرائم پر بھارت کیخلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کے سابق وزیر داخلہ یشونت سنہا نے یہ تلخ سچ اگل دیا ہے کہ ’بھارت بزور طاقت کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کرر ہا ہے۔‘‘
آج اگر حکومت پاکستان کو سکھوں کا اتنا درد محسوس ہوا ہے تو کشمیریوں کیلئے ایسے درد کی جگہ جگر میں کیوں نہیںبن سکی۔ اگر سکھوں کیلئے کرتار پور کی راہداری کھولی جا سکتی ہے تو سیالکوٹ تا جموں، جہلم تا سرینگر اور نیلم تا ویلی روڈ راہداری کیوں نہیں کھولی جاسکتی تاکہ کشمیریوں کو آر پار آنے جانے اپنے عزیز واقارب سے ملنے کیلئے ایمرجنسی ویزہ یا پرمٹ وہی ہے جاری کیا جا سکے۔ یقینا پاکستان کو انڈیا سے تجارت یا دوستی کی پینگھیں چڑھانے کی بجائے مستقل بنیادوں پر عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ اب تو بھارت کے اندر سے بھی اس سفاکیت کیخلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی واضح کر دیا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو عوام کی اکثریت کے مطالبے کے مطابق حل ہونا چاہئے ہمیں ایک ایسا حل نکالنا چاہئے جو باعزت باوقار اور جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت کیلئے قابل قبول ہو‘‘ کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا 71 سال میں کوئی فائدہ نہیں ہوا چنانچہ مذاکرات دوطرفہ نہیں بلکہ سہ فریقی ہونے چاہئے۔ اقوام متحدہ کا نامزد مشن پاکستان بھارت اور کشمیری قیادت کو ایک میز پر بٹھائے اسکے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان کشمیر کو اقوام متحدہ کے چیپٹر نمبر 7 کے تحت لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چیپٹر نمبر 6 کے تحت رکھنے کی وجہ سے اب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا۔ چیپٹر نمبر 7 کے تحت کشمیر میں بھارتی مظالم پر سلامتی کونسل ازخود نوٹس لے سکتی ہے کیونکہ اس چیپٹر کے آرٹیکل 39 تا 51 میں تفصیل سے لکھا گیاہے کہ اگر کوئی ملک جارحیت کرتا ہے یا کسی ملک کی وجہ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو تو سلامتی کونسل از خود نوٹس لے کر اسکے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اگر مقبوضہ وادی تمام حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے اور کشمیر میں آزادی کی تند و تیز لہروں کے تیور دیکھے جائیں تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب کشمیر میں غلامی کی طویل رات کی صبح صادق بالکل طلوع ہونے والی ہے جس کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
آزادی کشمیر کی صبح صادق
Feb 05, 2019