1985’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے خواب دیکھنے والوں کو ’’تھپکی‘‘؟

ء سے 1997کے درمیان ہوئے انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی کسی بھی قومی اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل نہیں کی۔ صدر کو آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔نواز شریف ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ 1997میں دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اس اختیار کو ختم کردیا۔ اس کے باوجود آئینی مدت مکمل نہ کر پائے۔ جنرل مشرف کو براہِ راست مداخلت کرنا پڑی اور نئے انتخابات کے لئے ہمیں نوے دنوں کے بجائے تین برس تک انتظار کرنا پڑا۔
2002میں جو پارلیمان نمودار ہوئی اس نے صدر کے اختیارات کو بحال کردیا۔ان انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی قومی اسمبلی نے مگر اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ ہوتی رہی۔ظفر اللہ جمالی کی جگہ کچھ دنوں کے لئے چودھری شجاعت حسین اور بالآخر شوکت عزیز وزیر اعظم منتخب ہوتے رہے۔
’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کاچلن اس کے بعد بھی برقرار رہا۔ صدر سے حکومتیں فارغ کرنے کا اختیار اٹھارویں ترمیم نے چھین لیا تو افتخارچودھری نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہونے کے بعد اپنے ادارے کو بہت ہی متحرک بنادیا۔ ازخود اقدامات کی ’’بہار‘‘ پھوٹ پڑی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس کی زد میں آئے۔ پیپلز پارٹی نے ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف کو منتخب کرکے بقیہ آئینی مدت اطمینان سے مکمل کرلی۔
’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کی گنجائش نواز شریف کے تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد بھی متحرک سپریم کورٹ ہی نے نکالی تھی۔ پانامہ دستاویزات کے انکشاف نے ایک طوفان اٹھایا۔ نواز شریف اس کی زد میں آئے۔ ریاستی اداروں کے نمائندے پرمشتمل JITکے سامنے ’’منی ٹریل‘‘ دینے کو پیش ہوتے رہے۔ بالآخر ’’اقامہ‘‘ کی بنیاد پر گھر بھیج دئیے گئے۔ان کی رخصت کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کے دفتر پہنچ کر قومی اسمبلی کے پانچ سال کو مکمل کیا۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ایک بار پھر اسلام آباد میں ’’باخبر‘‘ تصور ہوتے حلقے ’’ان ہائوس‘‘ تبدیلی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ملکی سیاست کا متجسس طالب علم ہوتے ہوئے میں اس ضمن میں سوالات اٹھانے کو مجبور ہوں۔ابھی تک کسی ایک کا بھی تسلی بخش جواب نہیں مل پایا ہے۔اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ عمران حکومت کو ایسا کوئی معاملہ درپیش نہیں جو اس کے ’’چل چلائو‘‘ کی فضا بنائے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر کو ریلوے کے ضمن میں شرمندہ اور پریشان کرنے والے سوالات البتہ پوچھے گئے۔ فرض کیا وہ ان کا تسلی بخش جواب فراہم نہ کر پائے تو محض خفت میں استعفیٰ دینے کو مجبور ہوں گے۔ عمران خان کے منصب کو ان کی رخصت سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ کو نواز شریف کے خلاف متحرک بنانے کے لئے پانامہ دستاویزات کے انکشاف کے بعد عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے ایک بھرپور تحریک بھی چلائی تھی۔ عمران خان صاحب کے خلاف کوئی ’’پانامہ‘‘ نمودار نہیں ہوا ہے۔میڈیا میں مہنگائی،کسادبازاری اور بے روزگاری کی بدولت عمران حکومت کے خلاف شکایات کا طوفان ہے۔اس طوفان کے تناظر میں بھی تواتر سے یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ خاں صاحب ذاتی طورپرنہایت دیانت دار ہیں۔انہیں حکومت کا مگر تجربہ نہیں۔ان کے گرد جمع ہوئے مشیران کی ناتجربہ کاری کو ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے بے رحمی سے استعمال کررہے ہیں۔مہنگائی کے ذمہ دار ’’مافیاز‘‘ کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔
قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھاری بھر کم تعداد کے ساتھ موجودگی کے باوجود اپوزیشن جماعتیں مہنگائی اور بے روزگاری کی بنا ء پر اُبلتے عوامی غصے کا اپنے ایوانوں میں بھرپور انداز میں اظہار نہیں کر پائی ہیں۔عمران حکومت کو حال ہی میں بلکہ اپوزیشن کی دو اہم ترین جماعتوں-پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی-نے ایک اہم ترین قانون کی منظوری کے لئے غیر مشروط تعاون فراہم کیا۔مذکورہ قانون اگر سرعت اور حیران کن اتفاق رائے سے منظور نہ ہوتا تو ہمارے ہاں ویسی ہی افراتفری پھیل جاتی جو 2007میں عدلیہ بحالی کی تحریک کی وجہ سے نازل ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے جنرل مشرف بالآخر اس برس کے نومبر میں ’’ایمرجنسی پلس‘‘ لگانے کو مجبور ہوئے تھے۔ کوئی بھی اپوزیشن جماعت اب کی بار ’’تاریخ‘‘ کو دہرانے میں مددگارہونے کو تیار نہیں۔’’سسٹم‘‘ کو برقرار رکھنے کی فکر میں مبتلا ہے۔
اس ’’فکر‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بارہا سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ فقط 84اراکین قومی اسمبلی کی طاقت کے ساتھ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کیسے حاصل کرسکتی ہے۔ٹھوس اعدادوشمار کے ساتھ جب یہ سوال شہباز شریف صاحب کے قریب شمار ہوتے کسی مسلم لیگی رہ نما سے نجی ملاقات میں اٹھاتا ہوں تو وہ محض مسکرادیتے ہیں۔اشاروں کنایوں میں مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عمران خان صاحب کو مبینہ طورپر وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے والی کئی مقتدر قوتوں کو ’’مزا‘‘ نہیں آرہا۔ ’’پچھتاوے‘‘ کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ لہذا تیل دیکھو اور تیل کی دھار۔
میری آنکھ‘‘ تیل‘‘ اور اس کی دھار دیکھنے کی عادی نہیں۔ ’’جٹکے ‘‘سوالات اٹھانے کا عادی ہوں۔اپنی اس عادت کی بنا پر عثمان بزدار صاحب کی پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے فراغت کی کہانیوں پر بھی توجہ نہیں دی۔میرے ساتھیوں کی اکثریت مگر میرے رویے کو ایک بوڑھے ہوئے رپورٹر کی تھکاوٹ کی وجہ سے نازل ہوا جھکی پن قرار دیتی ہے۔پارلیمانی کیفے ٹیریا میں بہت احترام مگر معصومیت سے وہ یہ سوال دہراتے رہتے ہیں کہ عمران حکومت کے اتحادی ’’اچانک‘‘ ناراضگی کا اظہار کیوں کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔
حکومتوں کے چل چلائو کا موسم ہو تو پہلا پیغام ہمیشہ بلوچستان سے آتا ہے۔رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا یہ صوبہ آبادی کے اعتبار سے کم ترین ہے۔اس کی صوبائی اسمبلی میں ’’گیم‘‘ لگانا بہت آسان ہے۔شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے تو راتوں رات بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف بغاوت پھوٹ گئی تھی۔ اس بغاوت کے سرغنہ عبدالقدوس بزنجو تھے۔زہری کی جگہ وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے تو جولائی 2018کے انتخابات کا ’’نقشہ‘‘ بھی ایک حوالے سے طے ہوگیا۔
بزنجو صاحب ان دنوں بلوچستان اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ماضی کی طرح اس بار انہوں نے موجودہ وزیر اعلیٰ کے خلاف آواز بلند کی تو اسلام آباد میں ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کی امید دلانے والے حلقے کافی تفخر سے میری توجہ اس کی جانب دلانا شروع ہوگئے۔
2017کے اواخرمیں بلوچستان میں جو گیم لگی تھی اس کی بدولت صادق سنجرانی بھی ایک اہم کردار کی صورت نمودار ہوئے۔ بالآخرپیپلز پارٹی کی بھرپور معاونت سے سینٹ کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ چند ماہ قبل صادق سنجرانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لئے ایوانِ بالا میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئیں۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو 64اراکین نے اپنی نشستو ں سے کھڑے ہوکر ان کی مخالفت میں ووٹ دینے کا اعلان کیا۔تنہائی میں بیلٹ پر مہر لگاتے ہوئے لیکن 15اراکین کا ’’ضمیر‘‘ جا گ گیا۔ صادق سنجرانی اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ وہ تحریک انصاف سے تعلق نہیں رکھتے۔ عمران خان صاحب ان کی سیاسی قوت کا سرچشمہ بھی نہیں۔ ’’سولو‘‘ کھیلتے ہیں اور ہر ایک سے بناکررکھتے ہیں۔
اپنے عہدے کی ’’غیر جانب داری‘‘ کو نظرانداز کرتے ہوئے لیکن وہ بلوچستان پہنچ گئے اور قدوس بزنجو کو اسی تنخواہ پرکام کرنے کو رضامندکرلیا۔بلوچستان سے وفاقی حکومت کے چل چلائو کا پیغام مہیانہ ہوسکا۔ گزشتہ ہفتے سنجرانی صاحب کراچی چلے گئے۔عمران حکومت سے ناراض ہوئی ایم کیو ایم کے وفد نے ان کا استقبال کیا۔اس جماعت کے رہ نما خالد مقبول صدیقی نے کابینہ سے استعفیٰ دے رکھا ہے۔عمران خان صاحب حال ہی میں کراچی گئے تو اپنے ناراض وزیر سے ملاقات کا تردد بھی نہیں کیا۔قومی اسمبلی میں تین اراکین کی حمایت کے حامل پیرپگاڑا سے ملنے ضرور تشریف لے گئے۔ ایم کیو ایم اس کے باوجود گومگو کے عالم میں ہے اور سنجرانی صاحب ان کی دلجوئی میں مصروف ہیں۔
فقط سیاسی نگاہ سے دیکھیں تو سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی ان دنوں عمران حکومت کے خلاف ممکنہ طورپر ابھرتے بحران کو رفع کرنے کے لئے آنیوں جانیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان کا متحرک ہونا مجھے یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ ’’وہاں‘‘ نا م نہاد پچھتاوے کا عالم نہیں ہے۔’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے خواب دیکھنے والوں کو ’’تھپکی‘‘ میسر نہیں۔ یہ محض ایک کہانی ہے جو شہباز شریف صاحب کے گرویدہ اراکین قومی اسمبلی خود کو تسلی دینے کے لئے پھیلائے چلے جارہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن