کشمیریوں کی غیر منظم اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرتے ہوئے پاکستانی قوم آج (آج 5 فروری کو)یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے، کشمیریوں کی حالت زار پر عالمی برادری کی خاموشی مجھے اکثر ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھتی ہے۔ تاہم کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں یوم یکجہتی کشمیر میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت سے لے کر آج تک تسلسل کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اب کے بار یوم یکجہتی کشمیر کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیار کر گیا ہے جیسا کہ مودی سرکار نے 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے 6 ماہ سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ کشمیریوں کی مشکلات و آزمائش کا سلسلہ ہنوزختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیا کشمیریوں کی پہلی قربانیاں ہی کافی نہیں تھیں۔ اگست کے بعد تو فاشسٹ مودی حکومت نے دہشت گردی کے نئے دور کا آغاز کر دیا جس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ لگتا ہے، مودی سرکار نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی کتاب سے ایک ورق لیا ہے۔ دونوں خطوں (کشمیر، فلسطین) میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر دنیا نے آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔ جب سے مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو لوٹا ہے۔ تب سے دو سوالوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ ایک تو یہ کہ مودی سرکار کو اس وقت ایسا کرنے کی جرأت کیونکر ہوئی۔ حقیقت تویہ ہے کہ تقسیم برصغیر سے ہی بھارت ایک قابض قوت بنا ہوا ہے تاہم میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کی داخلی کمزوریوں، معاشی و سفارتی رکاوٹوں سے مودی کی انتہا پسند ہندو حکومت کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور بھارت کے بانی ’’باپوئوں‘‘ کے وعدوں کی خلاف ورزی کرنے اور خصوصی حیثیت منسوخ کرکے کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کی جرأت ہوئی کیونکہ معاشی طور پر مضبوط ، سیاسی لحاظ سے مستحکم اور داخلی طور پر ہم آہنگ پاکستان ہی مودی کے فاشسٹ عزائم پر نگاہ رکھ سکتا ہے۔
تاہم کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا تو 26 سال سے بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ رہا ہے لیکن اس انتہا پسند ایجنڈا کا نفاذ پہلے کبھی ممکن نہ ہوا اور موجودہ فضا ہی اس کو موزوں اور سازگار لگی اور بدقسمتی سے اس کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ یہ نوشتۂ دیوار تھا۔ مودی اور اس کے ساتھیوں نے انتخابی مہم کے دوران ساری توجہ پاکستان پر مرکوز رکھی ایسے وقت جب کشمیر پر منصوبے بنائے جا رہے تھے مودی اور امیت شاہ کی جوڑی اس سلسلے میں بیج بو رہی تھی جبکہ بھارتی صحافی ذہن سازی کر رہے تھے تاہم ہمارا دفتر خارجہ خطرے کی گھنٹیاں بجانے میں ناکام رہا۔ یہی وہ وقت تھا جب وزیر اعظم عمران خان بھارتی وزیر اعظم مودی سے التجائیں کر رہے تھے اور پیش گوئی کر رہے تھے کہ مودی کی کامیابی جنوبی ایشیاء کے لیے اچھی رہے گی۔ کشمیر قومی المیوں میں سے ایک ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے تو کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ لیکن مودی سرکار نے اس کو بھارتی یونین میں ضم کرکے خطے میں ایٹمی تباہی کے خطرات پیدا کر دئیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور دہشت گردی میں بے لگام رہا ہے تو ایسے حالات میں کشمیریوں کا عزم متاثر کن ہے۔ انہوں نے مودی سرکار کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور خود ارادیت کے بنیادی حق پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی بے مثال جرأت ، عزم اور مزاحمت کے ساتھ تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا۔ طاقتور کے مقابلے میں ان کی مزاحمت و بہادری کی کہانیاں ہمیشہ دنیا کے مظلوموں کا حوصلہ بڑھاتی رہیں گی۔ کشمیریوں کا مقدس لہو ہم پر قرض ہے۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے کبھی آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ مسئلہ کشمیر کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کا بہترین طریقہ پاکستان کا داخلی استحکام ہے اور خود پر انحصار کرنے والا پاکستان ہی اقوام عالم میں کشمیریوں کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑ سکتا ہے۔ مودی نے کشمیر کو ’’جسمانی‘‘ طور پر تو بھارت کے ساتھ زبردستی منسلک کر لیا لیکن وہ جذبۂ حریت کو شکست دینے میں ناکام رہا جو ہمیشہ سے کشمیریوں کا طرۂ امتیاز ہے۔
بھارت جیسی طاقت کے مقابلے میں کھڑے ہو کر کشمیریوں نے اپنا عہد نبھا دیا ہے اب ہمیں بھی غور کرنا ہو گا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ کافی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں۔
اس سلسلے میں گہری تشخیص کی ضرورت ہے‘ میری طرف سے یوم کشمیر کا پیغام یہی ہے۔