اظہار یکجہتی کشمیر کے عملی تقاضے !

Feb 05, 2020

سراج الحق

5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام جس میں انتہاپسند مودی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا اور کشمیر کو بھارتی ریاست ڈکلیئر کر کے 80لاکھ کشمیری مسلمانوں کو گویا ہمیشہ کیلئے اپنا غلام بنانے کی کوشش کی ۔ پانچ فروری 2020کو کشمیر میں بدترین کرفیو کو ایک سو پچاسی دن ہوگئے ہیں ۔ان تقریبا سات ماہ میں ایک کوئی دن بھی کشمیریوں نے چین کے ساتھ نہیں گزارا۔اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری بھی اس پر عملاً کچھ نہیں کرسکی ۔
5فروری ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر انتہائی جوش و جذبہ اور تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے ۔اس دن پوری پاکستانی قوم مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کیلئے جلسے جلو س ،ریلیوں اور سیمینارز میں کشمیریوں کا ہر سطح پر ساتھ دینے کے عہد کا اعادہ کرتی ہے ۔حکومتی سطح پر بھی رسمی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی طرف سے بھارتی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کے بلند و بانگ دعوے سنائی دیتے ہیں ،بلاشبہ یہ تقریبات اور روایت انتہائی مبارک اورقابل تحسین ہیں لیکن بحیثیت قوم ہمیں جائزہ لینا اور اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ کیا ہم ان توقعات اور امیدوں پر پورا اترتے ہیں جو کشمیری شہداء کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں نے ہم سے لگا رکھی ہیں۔کشمیری شہدا قبر میں بھی اپنے جسموں پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لپیٹ کر اترتے ہیں مگر ہمارے حکمران کشمیری شہدا کے خون سے بے وفائی کررہے ہیں ۔ پاکستانی قیادت اور قوم کی آنکھیں کھولنے کیلئے مودی کا یہ بیان کافی ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے اور یہ بیان اس نے طوطے کی طرح کئی بار دہرایا ہے ۔مودی کشمیر میں ہمار ا خون بہارہا ہے اور پاکستان کے حصہ کا پانی بند کرکے پاکستان کو بنجر صحراء بنانے کے ایجنڈے پر کاربند ہے کشمیر کے لوگ مزاحمت نہ کرتے تو بھارت اب تک کئی بیراج اور ڈیم بنا چکا ہوتا،موجودہ پنجاب اور سندھ ریگستان کا منظر پیش کررہا ہوتا،کشمیریوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کو سیراب کرنیوالے دریائوں کی حفاظت کی اور پاکستان کو بنجر ہونے سے بچایا ۔ پنجاب اور سندھ کی لہلہاتی فصلوں میں پانی کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کا خون بھی شامل ہے ۔کشمیری بھارت کا راستہ نہ روکتے تو پاکستان کے اندر ہزاروں کلبھوشن تخریب کاری کررہے ہوتے ۔پاکستان کے جغرافیائی تحفظ کیلئے کشمیریوں نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔کشمیری29سال سے بھارتی قابض فوج کے ساتھ برسرپیکار ہیں ، ہزاروں نوجوان بھارت کے عقوبت خانوں میں اذیت ناک اور انسانیت سوز سزائیں بھگت رہے ہیں،کشمیریوں کی عزتیں محفوظ نہیں رہیں ،مساجد اور مدارس اور کھیتو ں اور کھلیانوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے ،جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کی بجائے تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا جاتا ہے ،برہان مظفر وانی کی شہادت اور 5اگست کے بھارتی اقدام کے بعد سے بھارتی فوج کے ظالمانہ ہتھکنڈوں میں بے انتہاء اضافہ ہوچکا ہے لیکن کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو یہ ظلم و جبر اور حیوانیت ٹھنڈا نہیں کرسکی۔
یہ طے ہے کہ بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار نہیںرکھ سکتااسے آج یا کل کشمیر سے ذلیل و خوار ہو کر نکلناپڑیگا۔مگر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے کشمیر ی بھائیوں کی آزادی کی جدوجہد میں کیا حصہ ڈالا۔ حکومت پاکستان کو کشمیریوں کیلئے اقوم متحدہ اور ہلال احمر کو مشترکہ طور پرایک ریلیف فنڈ بھی قائم کرنا چاہئے تاکہ ہزاروں زخمیوں کے علاج معالجے کا کوئی انتظام کیا جاسکے ۔ اقوام متحدہ نے بھارتی ظلم و جبر پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ جبکہ اسی یواین او نے مشرقی تیمور ، جنوبی سوڈان اور پاکستان کو دولخت کرنے میں بڑی مستعدی کا مظاہرہ کیا ۔کشمیر پر اقوام متحدہ اندھی بہری اور گونگی ہو چکی ہے ۔ہم نے ملک بھر میں کشمیر مارچ کئے جن میں عوام نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرکے حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی۔ہم نے گزشتہ سال مظفر آباد سے چکوٹھی تک کشمیرمارچ میں اعلان کیا تھا کہ ہم لائن آف کنٹرول کو نہیں مانتے اور اس دیوار برلن کو ایک دن گرا کر دم لیں گے ۔بھارت دونوں طرف کے کشمیریوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتا۔ بھارت کیساتھ پاکستان کے تعلقات کا راستہ کشمیر سے گزرتا ہے۔ پوری دنیا کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو مانتی ہے جس کی بنیادی وجہ کشمیریوں کی لازوال جدوجہد ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں بحث اور قرارداد ایک اہم پیش رفت ہے ۔وہ دن دور نہیں جب کشمیریوں کو اُن کی امنگوں کے مطابق استصوابِ رائے کے ذریعے بھارتی جبر و تسلط سے آزادی نصیب ہوگی اور وہ خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے قابل ہونگے۔

مزیدخبریں