اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے سر برا ہ ہونے کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان کے دو عہدوں کیخلاف دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ چیف جسٹس کی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کی سربراہی آئین کے خلاف نہیں جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی آرڈیننس عدلیہ کو مزید طاقتور بناتا ہے۔ چیف جسٹس کو بطور چیئرمین جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کوئی مراعات نہیں ملتیں۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے موقف اپنایا کہ پالیسی بنانا عدلیہ کا نہیں ایگزیکٹو کا اختیار ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیکر فیصلے کرتی ہے، عدلیہ کی کارکردگی کے حوالے سے فیصلہ ایگزیکٹو کیسے کر سکتی ہے؟ پالیسی ساز کمیٹی میں اعلی عدلیہ کے ججز شامل ہوتے ہیں، وکیل ریاض حنیف راہی نے کہا پرویز مشرف کے دو عہدے عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا پرویز مشرف کیس کا اطلاق آپ کے مقدمہ پر کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر صدر مملکت پی سی بی کے پیٹرن ان چیف ہوتے ہیں، کوئی چیف جسٹس اپنی خواہش سے پالیسی ساز کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کا سربراہ نہیں بنتا، قانون کے مطابق اگر کوئی عہدہ ملتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، وکیل نے موقف اپنایا کہ سابق چیف جسٹس 2018 میں حکم دے چکے کہ مقدمہ کسی اور عدالت میں لگایا جائے جس پر جسٹس اعجا ز الاحسن نے کہا سابق چیف جسٹس نے خود مقدمہ سننے سے معذرت کی تھی۔ سابق چیف جسٹس کے موقف سے متفق ہونا لازمی نہیں، عدالت نے کیس کسی اور بنچ میں منتقل کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔