یوم یکجہتی کشمیر …پس منظر …اور تقاضے

آج یوم یکجہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کے 5اگست 2019ء کے اقدامات کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا گیا ہے ، گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل کر فیو اور پابندیاں ہیں، ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے بھارت کی دور دراز جیلوں میں بدترین مظالم اور ہتھکنڈوں کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ قائدین حریت جیلوں میں بند ہیں اور وہ وکلاء ، عزیز و اقارب اور ڈاکٹرز کی رسائی سے محروم ہیں ۔نوے سالہ قائد حریت جناب سید علی گیلانی گزشتہ 10 برس سے گھر میں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں ، تیمار داری کر نے والے عزیز و اقارب گرفتار کر لئے گئے ہیں ۔جناب یاسین ملک ، جناب شبیر احمد شاہ ، محترمہ آسیہ اندرابی شدید بیمار ہیں ، علاج معالجہ کی سہولیات سے مرحوم ہیں ، سنٹرل بار سری نگر کے صدر جناب میاں عبدالقیوم آگرہ جیل میں شدید عارضہ قلب کا شکار ہیں ، جناب ڈاکٹر عبدالحمید فیاض امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پانچ ہزار سے زائد کارکنان اور ذمہ داران کے ساتھ گرفتار ہیں ، جماعت کے گرفتار رہنماؤں کو بھی بھارت کی دور دراز جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے جہاں وہ تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ ان میں سے دو بزرگ رہنما نذیر احمد کرنائی ساکن بھدرواہ اور جناب غلام محمد بٹ کپواڑی بھارتی جیلوں میں بروقت علاج معالجہ کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شہید ہو گئے یا کر دیئے گئے ، عزیز او قارب کی بڑی تگ و دو کے بعد ان کی میتیں حاصل کی گئیں، کرفیو توڑتے ہوئے ہزاروں نوجوانوں نے ان کی نماز جنازہ میں شریک ہو کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ معاشی میدان میں سیاحت ، تجارت اور فصلات بالخصوص سیب کی فصل تباہ ہو گئی ہے ۔ ماہرین کے جائزوں کے مطابق ڈیڑھ ارب ڈالر ز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، لیکن ان تمام بھارتی استعماری ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری سرنڈر کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ کشمیر ی جو اب تک نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی سے وابستہ تھے اوربھارت نواز سمجھے جاتے تھے ، جن میں فاروق عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور ان کے خاندانوں اور پارٹیوں کا ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے نتیجے میں حریت کانفرنس کی صفوں میں کھڑے ہونے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ نریندر مودی کی اس بے تدبیری نے پوری کشمیری قوم کو ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے جو کسی اور تدبیر سے ممکن نہ تھا۔ مودی کے ان اقدامات کو کشمیریوں اور غیر مسلم اقلیات نے بھی مسترد کر دیا گیا ۔ صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے وکلاء کی ہر سطح کی بار ایسوسی ایشنز نے ہزاروں کی تعداد میں ایک کانفرنس کے ذریعے ان اقدامات کو مسترد کر تے ہوئے دفعہ 370 اور 35-A کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ان دفعات کے خاتمے کے بعد مودی حکومت لاکھو ں غیر ریاستی ہندؤں کو جموں وکشمیر میں آباد کر نا چاہتی ہے، ان کا پڑاؤ یقینا جموں ہو گاکیونکہ اصل جموں کو خدشہ ہے کہ معاشی استحصال کا پہلا شکار وہ ہیں اس کے لئے وہ مزاحمت کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ان بھارتی اقدامات کو مسترد کیا گیا ۔ بھارتی لابی کی تمام تر کوششوں کے باوجود دو مرتبہ سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل نے بھارتی موقف کو مسترد کر تے ہوئے کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیا، برطانوی پارلیمان میں درجنوں کانفرنسیں ہوئیں ، یورپی پارلیمنٹ میں سینکڑوں ممبران کی طرف سے قراردادیں زیر بحث ہیں ، برطانیہ یورپ کے دیگر دارالحکومتوں ، امریکہ اور مسلم دنیا کے دارالحکومتوں میں مسلسل سرگرمیاں جاری ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن