بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے منصوبے کی نگرانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنادیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بابری مسجد کے ساتھ مندر بنانے کے منصوبے کی نگرانی کے لیے ٹرسٹ بنائے جانے کے بیان کے بعد طویل عرصے تک مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی کا باعث بننے والا معاملہ اب ہندو انتہاپسندوں کی سوچ کے مطابق حقیقت بننے کے قریب پہنچا ہے۔یاد رہے کہ 30 سال قبل ہندو انتہاپسندوں نے ایودھیہ کے مقام پر قائم صدیوں پرانی بابری مسجد کو شہید کیاتھا جس کے بعد مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچی تھی اور ملک میں فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔بھارت کی سپریم کورٹ نے دہائیوں بعد گزشتہ برس نومبر میں فیصلہ سنایا تھا کہ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنایا جائے جو انتظامات کو دیکھے گا اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دینے کو کہا تھا۔نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں ٹرسٹ بنائے جانے کا اعلان کیا تو پارٹی اراکین کی جانب سے جے رام کے نعرے لگائے گئے اور تالیاں بجائی گئیں۔بھارتی وزیراعظم نے مندر کی تعمیر کے بعد اس کے نام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایودھیہ میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کیجیے۔خیال رہے کہ مودی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1992 میں ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد رام مندر کی تعمیر تھا جو بابری مسجد کی شہادت سے قبل شروع کی گئی تھی۔بعد ازاں جب نریندر مودی 2002 میں بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلی منتخب ہوئے تو ایودھیہ سے آنے والی ریل میں آگ لگنے کے باعث 59 ہندو ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد کو بے دردی سے مارا گیا تھا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔مودی کی جانب سے یہ انتہاپسند ہندووں کے موقف کے حق میں بیان پہلی مرتبہ نہیں آیا بلکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر مودی کا بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔بھارتی وزیرداخلہ اور بی جے پی کے مرکزی صدر امیت شاہ نے مودی کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مندر کی تعمیر کا صدیوں پر مشتمل طویل آزما انتظار ختم ہوگیا اور لوگ بالآخر رام کی جائے پیدائش میں عبادت کرپائیں گے۔یاد رہے کہ 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کوسناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔سابق چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے۔ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ اس وقت کے بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس کو سپریم کورٹ نے12 دسمبر کو مسترد کردیا تھا.