غیور کشمیری، قاتل مودی اور بے حس دنیا!!!!

ویسے تو کشمیر میں دہائیوں سے ظلم جاری ہے۔ دہائیوں سے کشمیر میں آزادی کے متوالوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ دہائیوں سے کشمیری اپنی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، دہائیوں سے  معصوم بچوں سے معصومیت چھینی جا رہی ہے، دہائیوں سے مسلمان خواتین کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ان برسوں میں کبھی دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے مسئلے پر دنیا کے نام نہاد امن پسند ممالک کو کبھی بھارت کا ظلم نظر نہیں آیا، کبھی کشمیریوں کے زخم دکھائی نہیں دیئے، کبھی کشمیریوں کی لاشیں دکھائی نہیں دیں، کبھی معذور ہوتے انسان نظر نہیں آئے، کبھی ٹارگٹ کلنگ نظر نہیں آئی، کبھی دنیا کو معصوم بچوں پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آئے، وہ بچے جن کے ہاتھوں میں کھلونے ہونے چاہئیں وہ بچے بھارتی فوجیوں پر پتھر پھینکتے ہیں لیکن امن کے نام نہاد علمبرداروں کو کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ جو اپنے کتوں کی بیماری یا زخموں پر سو نہیں پاتے انہیں کشمیر میں جیتے جاگتے انسانوں پر ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا، وہ جو خواتین کی آزادی کے علمبردار بنے پھرتے ہیں جنہیں دنیا میں کہیں بھی خواتین پر جملہ کسنا بھی ناقابلِ معافی جرم معلوم ہوتا ہے۔ دہائیوں سے کشمیری خواتین پر ہونے والا ظلم بھی ان کے مردہ ضمیر کو زندہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کشمیر میں ہونے والا ظلم عالمی طاقتوں کے انصاف، ضمیر اور غیر جانبداری کے اصولوں کو جھٹلا دیا ہے بلکہ ان نام نہاد اصولوں اور نعروں کو دفن کر دیا ہے۔ کیونکہ دہائیوں سے کشمیر میں بہنے والا خون، لٹنے والی عزتیں، کٹنے والی گردنیں، دنیا کی سب سے بڑی جیل، بھارتی فوج کی طرف نہ ختم ہونے والا ظلم روکنے کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ بھارت عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے بلکہ روندتے ہوئے کشمیریوں پر ظلم  و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ 
کیا دنیا یہ سمجھتی ہے کہ اس ظلم کا حساب نہیں ہو گا، یقینا اس ظلم کا حساب ہو گا، بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر کارروائی ضرور ہو گی۔ کیا ہوا جو ظلم کی رات لمبی ہے، رات ہی ہے نا، یہ رات کٹے گی، کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا حساب ان کے بھائی لیں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ ظلم و ستم جاری رہے اور اسے روکنے والا کوئی نہ ہو۔ درحقیقت یہ مسلم دنیا کا امتحان ہے، بھارت کا ظلم مسلم امہ کی آزمائش ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کشمیر میں ہونے والے مظالم پر اللہ کو جواب دینا ہو گا۔ کیا ہم نے تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد ﷺکی احادیث کو فراموش کر دیا ہے، کیا ہم اپنی سنہری تاریخ بھلا چکے ہیں، کیا ہم یہ بھول چکے کہ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث مبارکہ ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں وہ اپنے بھائیوں پر ظلم و ستم برداشت نہیں کر سکتے۔ کیا ہم یہ بھول چکے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انما المؤمنون اخوۃ آج امت مسلمہ قرآن کریم کو سیرت النبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ ہم یہ ظلم و ستم کیسے برداشت کر سکتے ہیں، ہم کیسے یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ کافر مسلمانوں کے بچوں کو قتل کرتے اور خواتین کی عصمت دری کرتے ہیں اور ہم صرف یادداشتیں پیش کرتے رہیں، کبھی کبھی ہم یادداشتیں پیش کرنے میں بھی مصلحت سے کام لیتے ہیں۔
آج یوم کشمیر ہے۔ آج ہم ان شہدا کے ساتھ، شہدا کے لواحقین کے ساتھ، معصوم بچوں کے ساتھ، بیبس خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی منا رہے ہیں۔ میں لکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھا جائے، کیا کہا جائے، کس طرح ان مظلوموں کا کیس لڑا جائے، کس طرح شہدا کے خون کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ کون ہے جو میرے الفاظ کو پڑھے اس پر سوچے یا عمل کرے گا۔ کوئی بھی تو نہیں ہے۔ ہم کیسے لکھ کر شہداء کے لواحقین کا دکھ بانٹ سکتے ہیں۔ ہم کیسے لکھ لکھ کر بھارتی افواج کے ظلم کا نشانہ بننے والوں کی یادداشت واپس لا سکتے ہیں، ہم کیسے کسی کی کٹی ہوئی ٹانگ واپس لا سکتے ہیں، کسیے لٹی عزتیں واپس لا سکتے ہیں، کیسے معصوم بچوں کو جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو شہید کیا گیا ہے انہیں یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ واپس آئیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس صورت میں ہمارے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو ہم خاموش ہو جائیں، بیحس ہو جائیں، بھارتی مظالم پر آواز بلند کرنا چھوڑ دیں یا پھر ہم ظالم کافروں کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ ویسے تو ہم اپنے کشمیری بہنوں، بھائیوں، بچوں اور بزرگوں کے لیے لکھنے بولنے سے بڑھ کر بھی کرنے کے خواہشمند ہیں اور ہم ضرور یہ بھی کریں گے، اللہ ہمیں وہ موقع بھی ضرور عطاء فرمائے گا جب ہم سرینگر کو آزاد کروائیں گے۔ ہم ظلم و ستم کا حساب لیں گے۔ ظالم بھارتی افواج سے دہائیوں کے ظلم و بربریت کا حساب لیں گے۔ وہ وقت ضرور آئے گا۔
یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مہذب دنیا کو آئینہ دکھانے کے لیے یہی کافی ہے کہ آج کشمیر پر کرفیو اور لاک ڈاؤن کو پانچ سو پچاس دن مکمل ہو چکے ہیں۔ ذرا سوچئے پانچ سو پچاس دن سے کشمیری قید کے اگلے مرحلے میں زندگی گذار رہے ہیں۔ وہاں میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ رابطے کے ذرائع بند ہیں، معلومات کے ذرائع بند ہیں، مذہبی آزادی چھین لی گئی ہے۔ بیرونی دنیا سے لوگوں کو کشمیر داخلے کی اجازت نہیں ہے، مقامی سیاسی قیادت کو قید کر دیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے سانس لینے کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔ غیور اور بہادر کشمیری ان سختیوں کا بھی دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ہم لکھنے، آواز بلند کرنے سے بڑھ کر کام کریں گے۔ ان شاء اللہ
 پانچ سو پچاس دن مکمل ہوئے ہیں ان دنوں میں کوئی ایک دن ایسا نہیں گذرا جب میں نے نوائے وقت کے صفحہ اول کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا اشتہار نہ دیکھا ہو، یہ اشتہار کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ میرے تعلق اور وابستگی کو مضبوط کرتا رہا ہے۔ صفحہ اوّل پر شائع ہونے والا یہ اشتہار مجھے امام صحافت، معمار نوائے وقت مجید نظامی مرحوم کا سبق یاد دلاتا ہے، یہ اشتہار مجھے نوائے وقت کی اس پالیسی پر مضبوطی سے کاربند رہنے کا درس دیتا ہے۔ آج امام صحافت مجید نظامی ہمارے ساتھ موجود نہیں ہیں لیکن ان کا سکھایا سبق ہمیں یاد ہے۔ آج وہ نہیں ہیں تو ان کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے، آج ہمیں شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جناب مجید نظامی پاکستان میں کشمیریوں کے حقوق کی سب سے مضبوط اور توانا آواز تھے، وہ ایک سچے کشمیری سے کسی طرح کم نہیں تھے، ان کا دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتا تھا، ان کا دل کشمیریوں کے درد کو محسوس کرتا تھا، ان کی زبان سے ہر وقت کشمیریوں کی آزادی کے الفاظ ادا ہوتے تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے رہے۔ آج ہمیں ان کے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے۔ ہمیں کشمیر کی آزادی تک بھارت سے ہر قسم کے تعلقات کے خاتمے کی مہم چلانی ہے۔ ہمیں کشمیر حاصل کرنے کے لیے بھارت سے جنگ کی حد تک جانا ہے۔ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور ہم اسے ازلی دشمن سے آزاد کروا کر رہیں گے۔ عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کبھی مذاکرات سے حل نہیں ہو سکتا، دنیا کا مفاد بھارت کے ساتھ ہے اور عالمی طاقتیں مذہب اور مالی مفادات کی وجہ سے کبھی کشمیر کے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیں گی یہ کام امت مسلمہ کو کرنا پڑے گا اگر امت رضامند نہیں ہوتی تو پھر یہ کام پاکستان کے مسلمانوں کو کرنا پڑے گا۔ کشمیری آج بھی پاکستانیوں کے منتظر ہیں، کشمیری ہمیشہ پاکستانیوں کے منتظر رہے ہیں، ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنا ہے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کی خاطر لڑتا رہے گا اور اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال سے لڑے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ تعالی سے ملے یعنی مر جائے اور اس پر جہاد کا کوئی نشان یعنی کسی زخم یا کسی جسمانی مشقت کا نشان نہ ہو تو اس میں کمی ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر مرنے والے کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر جو اللہ کی راہ میں نگرانی کرتا ہوا مرے اس کا عمل قیامت تک بڑھایا جاتا ہے اور قبر کی آزمائش سے امن رہتا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ایک دن گھوڑا باندھ کر نگرانی کرنا دوسرے دنوں میں ہزار روز ٹھہرنے سے افضل ہے۔ یعنی مسلمانوں کے اسلامی ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کرنا۔ 
حضرت ابو مالک اشعری کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جو اللہ کی راہ میں نکل گیا پھر مر گیا یا قتل کر دیا گیا یا اس کا گھوڑا یا اونٹ اسے کچل دے یا کوئی زہریلا جانور ڈس لے یا اپنے بستر پر مر جائے جیسے بھی اللہ چاہے تو وہ شہید ہے اس کے لئے جنت ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت ربیع بنت برا رضی الکہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں اے اللہ کے نبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم مجھے حارثہ کے متعلق نہیں بتائیں گے جنہیں غزوہ بدر میں تیر لگا تھا اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرو اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو میں اس پر خوب گریہ زاری کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام حارثہ جنت میں کتنے درجے ہیں اور بے شک تمہارا بیٹا فردوس اعلی میں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...