علامہ منیر احمد یوسفیؒ
اِسلام کا مقصد اِنسانو ں کے دِلوں کو نورِ ایما ن سے منور کرنا اوراَعما ل صالحہ،تزکیۂ نفس اور با طنی تطہیر کے ذریعے اعلیٰ اَخلاق و صفات پیدا کرنا ہے۔ رسولِ کریم ؐ فرماتے ہیں:یعنی ’’میں مکارمِ اَخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ (مؤطا امام مالک ص۷۰۵)
ایک حدیث شریف میں ہے رسولِ کریمؐنے فرمایا: ’’میں اچھے اَخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔(السنن الکبریٰ للبیہقی‘ مستدرک حاکم ‘ شرح السنۃ ‘ قرطبی )
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓمکارم اَخلاق کی تعلیم و تکمیل فرمانے والے پیارے محبوبِ کریم ؐکے فیض یافتہ اور بچپن سے ہی آپؐ کے قریبی دوست اور جانثار ساتھی رہے ہیں۔ آپ سعید طبیعت کے خوبصورت پیکر تھے۔ آپ ظہورِ اسلام سے قبل ہی اَخلاقِ حمیدہ سے متصف تھے۔آپ کے صحیفۂ اَخلاق میں سرفہرست تقویٰ وطہارت کا وصف ہے۔ ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق کے ایک غلام نے کوئی چیز لاکر دی۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓنے جب اُس کو کھالیا تو غلام بولا‘ آپ جانتے ہیں وہ کیا چیز تھی؟ پوچھا کیا تھی؟ اُس نے جواب دیا کہ میں عہدِجاہلیت میں جھوٹ موٹ کہانت کاکام کرتا تھا یہ چیز اُسی کا معاوضہ تھی۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ نے سنتے ہی قے کردی اور جو کچھ پیٹ میں تھاخارج کردیا۔ (بخاری جلد اص ۵۴۲)
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کو ایک راستہ سے اپنے گھر لے جارہا تھا۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اُس سے واقف نہیں تھے۔ پوچھایہ کو نسا راستہ ہے ؟ اُس شخص نے کہا‘ اِس راستہ میں اَیسے لوگ رہتے ہیں جن کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی ہم کو شرم آتی ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق ؓنے فرمایا: کیا خوب ! گزرتے ہوئے شرم بھی آتی ہے اور پھر بھی اُسی راہ سے جارہے ہو۔ اچھا!تم جائو میں نہیں جائوں گا ۔ (مسند احمد جلد ۳ص ۵۱)۔ یہ تھی تقویٰ و طہارت کیلئے وہ عمدہ مثال، اورخوفِ خداکا آپ کی ذات میں اِس درجہ غلبہ تھا کہ ایک مرتبہ ایک چڑیا کودرخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو اُس کو خطاب کرکے فرمانے لگے واہ واہ!اے چڑیا! تو کتنی خوش نصیب ہے۔ اے کاش میں بھی تیرے جیسا ہوتا، تو درخت پر بیٹھتی ہے‘ پھل کھاتی ہے اور پھر اُڑ جاتی ہے۔ تجھ سے کوئی حساب و کتاب نہیں۔ آہ! اے کاش میں ایک سرر اہ گذر میں ایک درخت ہوتا‘ اُونٹ وہاں سے گزرتا‘ مجھ کوپکڑتا ۔ اپنا منہ مجھ پر مارتا ۔ مجھ کو چباتا اور اِس طرح میری تحقیرکرتا اور پھر مینگنی کی شکل میں مجھ کو خارج کردیتا۔ یہ سب کچھ ہوتا مگر میں بشرنہ ہوتا۔ (منتخب کنز العمال مسند احمد جلد ۴ص۳۶۱)
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق اگرچہ نہایت جلیل القدر خلیفہ تھے۔ لیکن غریبوں اور ضرور ت مندلوگوں کا معمولی سے معمولی کام کرنے میں بھی اُن کو ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی اور نہایت خاموشی سے وہ اَیسے کام کرنے میںبڑی مسرّت محسوس کرتے تھے ۔ مدینہ منورہ میں ایک نابینا عورت تھی جس کا کام کاج کسی ہمدرد نے اپنے ذمے لے رکھا تھا، اس مدد گار کو چندروز ایسا بھی معلوم ہواکہ اُن سے پہلے کوئی اور شخص آکر اِس عورت کے تمام کام کرجاتا ہے۔چنانچہ اسے یہ معلوم کرنے کا تجسس ہواکہ یہ کون شخص ہے ؟ ایک شب وہ اُس کی جستجو میں کہیں چھپے بیٹھے رہا تو یہ دیکھ کر اُسے حیرت ہوئی کہ یہ شخص امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ ہیںجو خلیفہ ہونے کے باوجود پوشیدہ طور پر اُس نابینا عورت کے گھر آتے ہیں اور اُس کے تمام گھریلو کام کرجاتے ہیں۔ (ابن کثیر جلد ۲ص۲۹۱)
اِنکساری وتواضع اور فروتنی کی اِنتہایہ تھی کہ لوگ رسول اللہ کاخلیفہ ہونے کی حیثیت سے تعظیم وتکریم کے آداب بجالاتے تھے تو دِل میں شرمساری محسوس کرتے تھے اور فرماتے تھے ’’تم لوگوں نے مجھ کو بہت بڑھا چڑھا دیاہے ‘‘۔ اگر کسی سے مدح و ستائش کے اَلفاظ سن لیتے تو دِل ہی دِل میں کہتے کہ ’’اے اللہ تومجھ کو اِن لوگوں کے حسنِ ظن کے مطابق بنا۔ میرے گناہوں کو معاف کر دے اور اِن لوگوں کی بیجا تعریف پر میری پکڑ نہ کر‘‘۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں ‘ رسولِ کریم ؐنے فرمایا: جس کو یہ پسند ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جَلَّ مجدہُ الکریم اُس کی دُعا قبول فرمائے اور اُس کی بے چینی کو زائل کرے تو اُس کو چاہئے تنگدست (مقروض) کو مہلت دے اور چاہئے اُسے کچھ چھوڑ بھی دے اور جو شخص یہ چاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جَلَّ مجدہُ الکریم قیامت کے دن جہنم کی گرمی سے بچائے اور اُس کو اپنے سایہء رحمت میں رکھے تو وہ ہرگز مومن پر کھردرا نہ بنے لیکن اُن سے رَحمت اور شفقت کا برتاؤ کرے۔ (دُرِمنثور جلد۱ ص۳۶۹‘ حلیۃ الاولیاء جلد۵ ص۱۳۰)
اگرچہ دوسروں کا معمولی سے معمولی کام کرنے میں بھی آپ کو عار نہیں آتی تھی لیکن خود داری کی وجہ سے دوسروں سے اپنا چھوٹاسا کام لینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ بسا اَوقات چلتے چلتے حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ سے اُونٹ کی نکیل گر پڑتی تو اُونٹ کو بٹھا کر نکیل اُٹھاتے۔ ایک مرتبہ لوگوں نے عرض کیا آپ اِتنی زحمت کیوں اُٹھاتے ہیں ہم کو حکم کیا کیجئے ہم اُٹھا دیں گے۔ فرمایا: میرے حبیب رسول اللہؐ نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔ (مسنداحمدجلد ۱ص ۱۱)
اسلام قبول کرنے کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزاردرہم تھے۔ مدینہ منورہ پہنچتے ہی کل پانچ ہزاررہ گئے۔ وہ بھی سب رسول اللہؐ کی خوشنودی میں خرچ کر دیئے۔یہاںحضرت خارجہؓ کی شراکت میں تجارت پھر شروع کی ‘اِس سے بھی جوکچھ آمدنی ہوئی‘ وہ غزوئہ تبو ک میںگھر کا سارے کا سارا سازو سامان حضور نبی کریم ؐکے قدموں پر لا کر رکھ دیا۔یہ واقعات توخلافت سے پہلے کے تھے۔خلافت سے قبل آپ کاذریعہ معاش تجارت تھا۔اِنتخاب کے کچھ دِنوں بعدتک بھی اِس کوقائم رکھا۔ ایک دِن حسبِ معمول کندھے پرکپڑوںکے کچھ تھان رکھے ہوئے با زارجارہے تھے کہ راستے میں حضرت سیّدنا عمر بن خطاب اور حضرت ابوعبیدہ ؓ مل گئے ‘اُنہوںنے کہا‘‘ اے خلیفۂ رسول آپ کہاںجارہے ہیںــــــ؟ بولے بازار۔ اُنہوں نے کہا اَب آپ مسلمانوں کے والی ہیں‘ چلئے ہم آپ کے لئے وظیفہ مقرر کردیںگے۔ (ابن اثیر جلد ۲ ص۲۹۱)روایت کے مطابق امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے کچھ روز توتجارت کامشغلہ جاری رکھالیکن جب آپ کو یہ محسوس ہوا کہ اِس سے فرائضِ خلافت کی اَنجام دہی میں یکسوئی باقی نہیں رہتی اور اِس میں خلل پڑتاہے توآپ نے خود صحابہ کرام ؓکے مشورہ کے ساتھ بقدرِضرورت بیت المال سے اپناوظیفہ مقررکرلیا۔(اسد الغابہ جلد ۳ص۲۱۷‘صحیح بخاری جلداص۵۱۷)۔ ایک مرتبہ آپ کی اہلیہ محترمہ کا جی چاہا کہ میٹھی چیز کھائیں۔ فرمائش کی تو گنجائش نہ نکلی۔،لہٰذا اہلیہ محترمہ نے روزمرہ کے خرچ سے کچھ رقم پس اَنداز کرنا شروع کردی چند روز میں اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ جتنے میں پکوان تیار ہو سکے۔ جب حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ کواِس کا علم ہوا تو فرمایا ،معلوم ہوا کہ روزمرہ کا خرچ اُن چند پیسوں کو کم کر دینے کے باوجود پورا ہو سکتا ہے جو تم روزانہ پس اَنداز کرتی تھی، اِس لئے آئندہ گھر کا خرچ اُسی قدر کم کر دیا جائے اور جو رقم پس اَنداز ہوئی تھی وہ بیت المال میں داخل کرا دی۔ (ابن کثیر جلد ۲ص ۲۹۱)
حُسنِ خُلق کا مظاہرہ سب سے پہلے اُس وقت ہوتا ہے جب آپس میں ملاقات اور سلام دُعا کا سلسلہ چلتا ہے۔ امیرا لمؤمنین حضرت سیّدناابوبکر صدیقؓ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق کا ارشاد مبارک تھا: ’’کیا تم دیکھتے نہیں لوگ تمہیں پہلے سلام کرتے ہیں اور ثواب لے جاتے ہیں تم پہلے سلام کیا کرو تو ثواب تمہارے حصّے میں آئے گا‘‘۔ (الادب المفردص ۱۴۵(بیروت))
مسندِخلافت پرجلوہ افروزہونے سے پہلے آپ محلہ کی بچیوں کی بکریوں کادُودھ دھو دیتے تھے ۔ خلیفہ ہونے کے بعدایک بھولی بھالی بچی کوسب سے زیادہ فکرہونے لگی کہ اب ان بکریوںکاکیاہوگاـ؟امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق نے سناتوفرمایا:اللہ کی قسم میں اَب بھی بکریاںدوہوںگا۔خلافت مجھ کوخدمتِ خلق سے بازنہ رکھ سکے گی۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت ابو بکر)
حضرت محمد بن عقیل ؒ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیّدناعلی ؓ نے خطبہ دیتے دیتے ہوئے پوچھاکہ بتائو دُنیاکاسب سے زیادہ بہادرشخص کون ہے ؟ہم نے کہا آپ‘ تو آپ نے فرمایا‘ نہیں‘ اِس کے بعداِرشادہوا ’’تمام لوگوں سے بہادر‘‘امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ تھے۔غزوئہ بدرکے موقع پر ہم نے نبی کریمؐ کے لئے ایک کیمپ بنادیاتھاجس میں آپ ؐ قیام فرما تھے۔ پھرہم نے پوچھاکہ اِس کیمپ میں حضورؐ کی چوکیداری کی خدمت کون اَنجام دے گا؟توکسی نے پیش قدمی نہیں کی ۔البتہ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے سبقت فرمائی اور شمشیربدست نبی کریم ؐکی خدمتِ عالیہ میں مستعدی اور آمادگی کے ساتھ پہرہ دیتے رہے۔اِسی طرح مکہ مکرمہ میں ایک مرتبہ قریش نے جب رسول اللہ ؐکواپنے نرغہ میں لیکرطرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کیںتواُس وقت بھی تنہا اَمیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ تھے جواِس ہجوم میں گھسے چلے گئے‘ کسی کو تھپڑ رسیدکیا‘کسی کولات ماری اورکسی کو پیٹا اور آخر یہ کہتے ہوئے کہ اَرے ظالمو! کیاتم اُس ہستی کوقتل کرناچاہتے ہوجوفرماتے ہیںکہ میرا رب اللہلہے اور رسول اللہؐکواُن کے نرغے میں سے نکال لائے۔
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے ‘ جب رسولِ کریمؐ ؐنے دُنیا سے پردہ فرمایا تو آپ ؐ کے دفن میں لوگوں نے اِختلاف کیایعنی کہاں دفنانا چاہئے؟تو حضرت سیّدناابو بکر صدیقؓنے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ؐسے ایک بات سنی ہے کہ ’’اللہ ل نے کسی نبی ؑ کو وفات نہیں دی مگر اُس جگہ جہاں اُن کا دفن کیا جانا پسند تھا لہٰذا حضور نبی کریم ؐکو بستر (مبارک) کی جگہ ہی میں دفن کرو‘‘۔ (ترمذی ‘مشکوٰۃ،کنزالعمال)
ابنِ عساکرؒ نے حضرت موسیٰ بن عقبہ ؒسے روایت کی ہے کہ امیرا لمؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق ؓنے ایک مرتبہ یہ خطبہ دیا’’تمام تعریفیںاللہ گ ہی کے واسطے ہیں ‘ میں اُسی کی حمدکرتاہوںاوراُسی سے مددمانگتا ہوںاورموت کے بعداُسی سے کرم کاخواستگارہوں‘اے لوگو! میری اورتمہاری موت قریب آچکی ہے۔ (ہمیں اورتمہیں سب کومرناہے )۔دنیا و آخرت کا یہ وہ ابدی پیغام تھا ،جسے دین اسلام کی پیروی اور اطاعت رسول ؐمیں جاری و ساری فرما کرآپ دنیا سے رحلت فرماگئے۔
وصال:آپ پندرہ روز علیل رہ کر پیر اورمنگل کی درمیانی شب۲۲ جمادی الثانی ۱۳ھ کو وفات پا گئے اور رسولِ کریم ؐکے پہلو میں دفن ہوئے۔
خلیفۂ اول کے کمالات و فضائل
Feb 05, 2021